یوں تو تاریخ اسلام میں بہت سے لطیفے مشہور ہیں جیسا کہ رسول ہم جیسا (معاذاللہ) ، رسول کی چار بیٹیاں تھیں، فلاں کو بنت رسول سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا (س) نے معاف کر دیا تھا، فلاں بہت جلالی و بہادر تھے وغیرہ وغیرہ ۔۔ لیکن تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والے مسلمان کو جس پر سب سے زیادہ قہقہہ لگار کر ہنسی آتی ہے وہ ہے افسانہ عقد ام کلثوم ۔۔

 

جس میں مسلم تاریخی راہزنوں نے اپنے اُس پیر کی عزت بچانے کے لئے جس نے بارہا کہا اگر علیؑ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا ایک عجیب و غریب قصہ گھڑا کہ فقط ایک داماد و خلیفہ رسول، صدیقِ اکبر اور فاروق اعظم یعنی مشکل کشائے دین خدا حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی جنابِ ام کلثوم کا نکاح مسلمانوں کے دوسرے غاصب خلیفہ حضرتِ لھلک عمر سے کر دیا تھا ۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔ کیا مذاق ہے بھائی ۔۔

 

سوچ تو رہے ہونگے کہ کیوں مجھے اتنی ہنسی آ رہی ہے ، ارے بھائی کیوں نہ آئے ؟؟ جس کو بچانے کے لیے یہ افسانہ گھڑا گیا اسی کی عزت کو اسی افسانوی گڑھے میں گرا دیا ۔۔ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔ اچھا اوکے اوکے ہنسی روکتا ہوں ۔۔

 

میرے بھائی ذرا یہ تو بتاؤ یہ کیسی فضیلت ہے کہ عمر کی بیٹی حفصہ تمہاری ام المومنین ہیں۔۔ رائٹ۔۔ تو ام کلثوم بنتِ علیؑ رشتے میں حفصہ کی نواسی ہوئیں اور حضرتِ لھلک عمر کی پر نواسی۔۔ ٹھیک کہا نا ۔۔۔

 

تو یہ فضیلت کیسے ہو گئی کہ اولڈ ایج عمر بن خطاب اپنی زندہ تین بیویاں رکھنے کے باوجود اپنی پَر نواسی جو کہ فقط 6 یا 7 سال کی ہو اس سے شادی کر لے ؟؟ کیا کسی نوبل فیملی میں ایسا کچھ سنا یا دیکھا کسی نے ؟؟ کیا کوئی شریف النفس انسان ایسا کرے گا ؟؟؟ یہ فضیلت ہوئی یا تمہارے پیر کی توہین ؟؟

 

تو کیوں نا ہنسو ہاہاہاہاہاہاہاہاہا حد ہے ۔۔ کیا بے ہودگی ہے یار ۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔۔

 

اچھا اب ہنسی مذاق ایک طرف۔۔ مجھے مسلمان کچھ سوالوں کے جواب دیں ۔۔

 

اگر یہ اتنی ہی بڑی فضیلت تھی تو آپ کی صیحیحہ ستہ یعنی قرآن کے بعد سب سے متعبر کتابیں اس پر کیوں خاموش ہیں ؟؟ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ اگر ایسا کوئی نکاح تاریخ میں ہوا تھا تو وہ نکاح کس جگہ واقع ہوا، کس نے پڑھایا؟؟ کون گواہ بنے ؟؟ اور کون کون سے صحابی اس نکاح میں شریک ہوئے ؟؟

 

کوئی جواب ہے ؟؟ نہیں نا ۔۔ تو آؤ بھائی اب میں اس تاریخی لطیفے کا فل اخلاقی آپریشن شروع کروں ۔۔

 

غلیظ ترین اہل سنت روایات کا اخلاقی آپریشن ۔۔۔

 

پہلی غلیظ روایت : الإصابة في تمييز الصحابة امام حافظ ابن حجر عسقلانی

 

عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا تو انھوں نے کہا کہ وہ صغیرہ ہے ۔حضرت عمر سے کہا گیا کہ حضرت علی نے آپ کو رشتہ دینے سے جواب دے دیا ہے پس انھوں نے پھر طلب کیا تو حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھاری طرف بھیجوں گا اگر تم کو پسند آگئی تو وہ تمھاری بیوں ہے پس علی نے ام کلثوم کو بھیجدیا اور عمر نے ان کی پنڈلی کھولی ۔ام کلثوم نے کہا ہٹ جا اگر امیر المومنین نہ ہوتا تو میں تیری آنکھوں پر تھپڑ ماردیتی ۔

 

حوالہ : الاصابہ ،جلد ۲ ،ص صفحہ۴۶۲

 

دوسری غلیظ روایت : ذخائر العقبى – احمد بن عبد الله الطبري

 

عمر نے حضرت علی سے ان کی دختر ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ۔حضرت علی نے فرمایا ابھی وہ کمسن ہے پس عمر نے کہا نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ آپ مجھ کو رشتہ نہیں دینا چاہتے اگر وہ کمسن ہے تو اس کو میرے پاس بھیجدو ۔پس حضرت علی نے ام کلثوم کو بلا کر ایک پوشاک دی اور کہا یہ عمر کے پے لے جاؤ اور ان سے کہہ دو میرے والد کہتے ہیں کہ یہ پوشاک کیسی ہے ؟ پس وہ پوشاک لے کر عمر کے پاس آئیں اور پیغام دیا تو عمر نے ام کلثوم کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ام کلثوم نے کہا میرا بازو چھوڑ دو ۔پس انھوں نے چھوڑ دیا اور کہا بڑی اچھی پاکدامن لڑکی ہے جاکر باپ سے کہدے کہ کتنی حسین اور کتنی خوبصورت ہے ایسی نہیں ہے جیسا کہ تم نے کہا تھا ۔ پس پھر علی نے ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی۔

 

حوالہ:ذخائر العقبی ،صفحہ۱۶۸

 

 

تیسری غلیظ روایت : صواعق محرقہ- ابن حجر مکی

 

حضرت علی نے حکم دیا اور ام کلثوم کو آراستہ کیا گیا اور حضرت عمر کے پاس بھیجا گیا جب عمر نے اس کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور لڑکی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور بوسے دیئے اور دعا کی اور جب وہ اٹھنے لگی تو پنڈلی سے پکڑ لیا اور کہا ۔باپ سے کہدینا میں بلکل راضی ہوں جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس آئی اور ان کو سارا واقعہ سنایا تو علی نے ان کا نکاح عمرسے کردیا ۔

 

حوالہ: صواعق محرقہ ،جلد ۱ ،صفحہ ۱۵۹

 

چوتھی روایت بھی صواعق محرقہ سے ۔۔

 

جب عمر نے علی سے رشتہ مانگا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے بھی رسول خدا کا نسب وسبب حاصل وہ تو علی نے حسن اور حسین سے کہا تم اپنی بہن کی شادی اپنے چچا عمر سے کردو ۔انھوں نے کہاوہ عورت ہے اپنے لئے خود اختیار کرےگی ۔پس علی غصّہ میں کھڑے ہوگئے اور حسن نے ان کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا اے ابا جان آپ کی ناراضگی ناقابل برداشت ہے پس حسن وحسین نے ام کلثوم کی شادی کردی ۔

 

صواعق محرقہ: صفحہ۱۵۵

 

ایک استعاب سے نقل کر کے روک رہا ہوں کیونکہ مجھ جیسا غیرت مند عام سا مسلمان بھی یہ بے ہودہ اور غلیظ ترین روایات لکھتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہے ۔

 

پانچویں غلیظ ترین روایت : الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب – ابن عبد البر

 

عمر نے ام کلثوم کارشتہ کیا تو انھوں نے کہا وہ ابھی چھوٹی بچی ہیں ۔عمر نے کہا کہ میری اس سے شادی کردیں ۔ میں اس کی فضیلت طلب کرنا چاہتا ہوں جس کو کوئی بھی طلب کرنے والا نہیں ۔حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھارے پاس بھیجتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرلو تو میں نے اس کی شادی تم سے کردی ۔پس حضرت علی نے اس کو ایک چادر دے کر بھیجا اور کہا اس سے کہدینا کہ یہی و ہ چادر ہے جو میں نے تم سے کہی تھی ۔ام کلثوم نے جا کر عمر سے یہ بات کہی تو عمر نے کہا ،اللہ تم سے راضی ہو میں نے پسند کر لی ۔پس عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی کی طرف ہاتھ بڑھا یا اور اس کو کھول دیا ۔ ام کلثوم نے کہا تم ایسا کرتے ہو اگر تم امیر المومنین نہ ہوتے تو میں تمھاری ناک توڑ دیتی پھر ام کلثوم واپس گئیں اور حضرت علی سے واقعہ بیان کیا اور کہا آپ نے مجھے بد کار بڈھے کی طرف بھیج دیا ۔حضرت علی نے فرمایا ۔اے بیٹی وہ تمھارا شوہر ہے ۔پھر مہاجرین کی محفل میں آئے اور کہا مجھے مبارک کہو۔ انھوں نے کہا کس لئے ؟ کہا میں نے ام کلثوم بنت علی سے شادی کرلی ۔

 

حوالہ: استیعاب ،جلد ۴ ،صفحہ ۴۶۷

 

تو قارئین یہ تھیں ان غلیظ و بے ہودہ ترین روایت میں کچھ جو اہل سنت روایات جس کو لکھتے لکھتے میں خود شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں ۔۔

 

ان روایات کو اگر کوئی بھی غیرتمند مسلمان پڑھے گا تو یقیناً اس پر عجیب کیفیت طاری ہوگی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ کس طرح سے مسلم تاریخ دانوں نے عمر بن خطاب کی فضیلت گھڑنے میں امام علی ؑ کی توہین کی جو کہ آیت تطہیر کی روح سے ہر نجاست سے بالکل پاک ہیں ۔

 

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے امام علی ؑ کی توہین ہے تو دل پر ہاتھ رکھ پر ان نکات پر غور کریں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک باپ ایسا بے غیرت ہو کہ اپنی 6 یا 7 سالہ بیٹی کو خود ہی ایک بڈھے امیدوار کے گھر بھیج دے کہ وہ چیک کرے ۔ توبہ توبہ یہ گھٹیا حرکت تو کوئی رذیل سے رذیل انسان بھی کرنے پر موت کو ترجیح دینا گوارہ کریگا چہ جائیکہ امیرالمومنین امام علی ؑ کے بارے میں ایسی تہمت !!!

 

اور پھر وہ شخص جو بڑھاپے میں نابالغ لڑکی سے شادی کرنے پر بضد ہے کس قدر درندہ صفت اور کمینہ ہے کہ معصوم بچی سے نازیبا حرکت کر رہا ہے جبکہ ابھی تک وہ اس کے نکاح میں بھی نہیں ۔الامان ۔

 

مطلب عجیب ۔۔ کہ لاچار باپ درندہ صفت حاکم کے محل میں اپنی بیٹی روانہ کرتا ہے اور وہ ننگ شرافت اس بچی کی پنڈلی کھول کر جبر کرنے کا ارادہ کرتا ہے کہ بچی کراہیت شدید کر کے مزاحمت کرتی ہے اور اعتراف کرتی ہے کہ اگر تو بادشاہ نہ ہوتا تو تجھے تھپڑ رسید کردیتی ۔ کیا اسلامی تعلیمات یہی ہیں جو مسلمانوں کے دونوں خلفاء کے کردار وں سے اس روایت کے مطابق ظاہر ہوتی ہے اگر یہی اسلام ہے تو پھر کفر اس سے لاکھ درجے بہترہے۔

 

یہ مسلمانوں کے اپنے خلیفہ کی توہین ہے یا فضیلت کہ مسلمانوں کا امیر المومنین خلیفہ المسلمین ،صحابی رسول ساٹھ سالہ بزرگ ایک غیر محرم نابالغ بچی کو نکاح کے بغیراپنی گود میں کھینچ کر بو س و کنار کرتا ہے پھر پنڈلی کی طرف ہاتھ پڑھاتا ہے یہ خلیفہ راشد کا کردار ہے یا کسی اوباش وعیاش فاسق وفاجر بادشاہ کی بد کرداری کا نمونہ ہے ؟؟؟؟ جواب دو سقیفائی اسلام کے جاہل پیروکارو۔۔

 

اب جو صواعق محرقہ کی دوسری روایت جو نقل کی ذرا اس پر بھی غور کریں کہ نابالغ بچی یا بالغ عاقلہ عورت کے نکاح کااختیار شرعی ولی کو ہے ۔ کوئی عورت اپنےشرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتی جیسا کہ امام مالک نے موطاء میں لکھا ہے جب ام کلثوم کے شرعی والی یعنی والد امام علی خود موجود تھے تو ان کو حسن وحسین سے شادی کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ شرعا ًنکاح کی اجازت دینا اور کروانا ان ہی حق کا تھا۔

 

خدا کی لعنت ہو ان تاریخ دانوں پر بے شمار ۔۔ لگاتار

 

ان ملعونہ روایات کو مزید دقت سے دیکھا جائے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عمر بن خطاب ، امام علی ؑ کو جھوٹا کہہ رہے ہیں یعنی عمر بن خطاب ، امام علی سے ایک کمسن اورروایت میں موجود لفظ صبیہ کے مطابق دودھ پیتی بچی کا رشتہ طلب کررہا ہے جبکہ امام علی یہ کہہ منع کر رہیں کہ وہ بچی ابھی چھوٹی ہے شادی کے لائق نہیں ہے مگر خلیفہ باپ کو جھٹلا دینے کے ساتھ خدا کی قسم کھا کر کہتاہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ جو تمہارے دل میں اس سے واقف ہوں یعنی قسم کھا کر عمر نے حضرت علی کوجھوٹا قراردیا ہے جبکہ خود اہل سنت عقائد میں یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے پر کامل بھروسہ رکھتے تھے ۔

 

تو قارئین اگر ان روایات پر میں اپنی جے آئی ٹی رپورٹ لکھوں تو آپ کو قطعاً اعتراض کرنے کا حق نہیں کیونکہ جو میں اب اخذ کرکے لکھوں گا وہ انہی روایات کی روشنی میں ہوگا جو خود اہل سنت کے ہاں قابل قبول ہیں۔

 

مختصر الفاط عقد ام کلثوم پر عمر بن خطاب پر جے آئی ٹی رپورٹ ۔۔

 

مذکورہ اہل سنت کی روایات میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمربن خطاب نے ساٹھ سال کی عمر میں ایک نامحرم ،کمسن بچی پر مجرمانہ حملہ کیا اور اگر کوئی دوسرا فرد ایسا کرتا تو اس کو عبرت ناک سزا دی جاتی مگر جب حاکم وقت نے یہ وحشیانہ قدم اٹھایا تعزیری کا روائی ساکت رہی ۔ان روایات سے تو صریحاً عمر کا ظالم ،فاسق وفاجر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

 

کوئی بھی تھوڑی سی عقل رکھنے والا مسلمان جو ریاضی یعنی Mathematics سے لگاؤ رکھتا ہے اور آسان جمع تفریق کر سکتا ہے وہ بآسانی سمجھ لے گا کہ عقد ام کلثوم واقعاً ایک تاریخی لطیفہ و افسانہ ہے ۔

 

پہلے کچھ نکات پر توجہ دلاؤں پھر جمع تفریق شروع کرتا ہوں ۔

 

قارئین کرام کسی بھی اہل سنت روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مبینہ نکاح کے وقت یعنی سنہ ۱۷ ہجری میں عمر کی زوجہ ام کلثوم بالغہ تھیں بلکہ صغیرہ اور صبیہ یعنی انتہائی کمسنی کے الفاظ بیان ہوئے ہیں جبکہ جنابِ ام کلثوم بنت امام علی ؑسنہ ۱۷ ھ میں شادی کے قابل تھیں ۔ام کلثوم کی نابالغی اور کمسنی پر تمام مورخین کا اتفاق ہے اور ابن حجر مکی نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب صواعق محرقہ میں لکھاا :

 

جب حضرت علیؑ نےام کلثوم کو عمر کے پاس بھیج تو وہ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ ان کے بوسے لئے ان کے حق میں دعا ئے خیر کی اور عمر نے ام کلثوم کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنے سینے سے چمٹایا ان کے ساتھ یہ برتاؤ ان کی عزت کے خیال سے کیا کیونکہ ام کلثوم اپنی کم سنی کی وجہ سے اس عمر کو نہ پہنچی تھیں کہ ان پر شہوت ہوسکتی جس کی وجہ سے حضرت عمر پر یہ باتیں حرام ہوتیں ۔اگر وہ بہت چھوٹی بچی نہ ہوتیں تو ان کے والد ان کو حضرت عمر کے پاس بھیجتے ہی نہ ۔

 

اب ساتھ ساتھ ذرا اہل سنت محقق کا یہ قول بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

 

ام کلثوم کی شادی حضرت عمر سے ہوئی اور عہد معاویہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ میں وفات پائی مگر یہی صاحب آگے چل کر پھر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور شام میں مدفون ہوئیں۔

 

حوالہ : السیدہ زینب، صفحہ ۲۳اور صفحہ ۶۴

 

علمائے اہل سنت جن میں ابن سعد ،امام نووی ،حافظ ذہبی اور مسعودی شامل ہیں ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام کلثوم زوجہ عمر کا انتقال معاویہ بن ابو سفیان کے دور میں ہوا پھر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ زینب بنت علی کے پہلے شوہر عبد اللہ بن جعفر ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن جعفر کا عقد ام کلثوم سے ان کی بہن زینب کے انتقال کے بعد ہوا ۔لیکن ابن انباری نے اس کےخلاف یہ لکھا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر کی شادی پہلے ام کلثوم سے ہوئی ان کے مرنے کے بعد زینب سے نکاح کیااور حسن عدوی کی بھی یہی رائے ہے ۔ اگر ابن انباری اور عدد ی کا قول مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ بی بی زینب کی شادی ۴۹ سال کی عمر میں ہوئی جو قطعا باطل ہے کیونکہ سنہ ۱۷ امام علی علیہ السلام خود نے حضرت زینب کا عقد جناب عبد اللہ سے کیا تھا ۔

 

اب ذرا اس مبینہ نکاح کے حاضر باراتی مجھے بتا ئیں کہ جس ام کلثوم کا انتقال دورِ معاویہ میں ہو چکا تھا وہ بعد میں دوبارہ زندہ ہوکر کیسے کربلا میں آئیں اورکیسے قیدی ہو کر شام چلی گئیں ؟؟ ہاہاہاہاہا عجیب و غریب ۔۔

 

چلیں اب جمع تفریق ہو جائے ۔۔

 

1- تو تاریخ کہتی ہے کہ جب عمر ابن خطاب اسلام لایا تواس کی عمر چالیس 40 برس تھی اور ترسٹھ 63 برس کی عمر میں عمر ابن خطاب کا قتل ہو گیا ۔

 

2- تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ دعوتِ ذولعشیرہ یعنی اسلام کی پہلی دعوت کے وقت امام علی کی عمر مبارک 9 برس تھی ۔

 

3- تمام شیعہ سنی مورخین کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ امام علی کا جناب ِ فاطمہ زہرا سے نکاح 25 برس کی عمر میں ہوا۔۔ یعنی دعوت ذولعشیرہ کے 16 برس بعد۔

 

4- یعنی عمر بن خطاب ، دعوت ذولعشیرہ کے 7 سال بعد اسلام لیا ، یعنی جب اس نے کلمہ پڑھا تو اس وقت امام علی ؑ کی عمر مبارک 16 برس تھی ۔

 

5- عمر کے اسلام لانے کے 9 برس بعد امام علی کا نکاح بحکم خدا جنابِ زہرا سے ہوا یعنی 25 سال کی عمر میں ۔یعنی جب امام علیؑ کی شادی ہوئی تب عمر ابن خطاب 49 برس کے تھا ( 40+9=49 برس )

 

6- تمام مورخین نے یہ بھی لکھا کہ امام علیؑ کی شادی کے ایک سال بعد امام حسن ؑ کی ولادت با سعادت ہوئی اور 2 برس بعد امام حسین ؑ دنیا میں تشریف لائے اور پھر 4برس بعد سیدہ زینب ؑکی ولادت باسعادت ہوئی ۔ ٹھیک!

 

7- اہل سنت مورخین کے مطابق جناب ِ ام کلثوم بنت امام علی ؑ ، جناب زینب ؑکے 2 سال بعد پیدا ہوئیں ۔

 

8- تو بی بی ام کلثوم کی پیدا ئش پر عمر بن خطاب کی عمر55 برس تھی (55=6+49)

 

9- جناب ِ ام کلثوم کی ولادت کے ٹھیک 8 سال بعد عمر قتل ہو گیا یعنی 63 سال کی عمر میں (8=55-63)

 

اب تتیجہ نکالتے ہیں ۔۔

 

اہل سنت تاریخ دانوں کے مطابق عقد ام کلثوم عمر کے مرنے سے 3 سال پہلے ہوا اور سب نے یہ بھی لکھا کہ اس مبینہ نکاح سے عمر کے ہاں ام کلثوم سے ایک بیٹا بھی پیدا ہوا جس کا نام زید بن عمر تھا ۔

 

یعنی شادی کے وقت ام کلثوم کی عمر 5 برس ہوئی (5=3-8)

 

لو جی افسانہ عقد ام کلثوم کے موجودہ باراتیوں کا تو جنازہ ہی نکل گیا ۔۔ ذرا باراتی مجھے بتائیں گے کہ کس عقلی اور منطقی قانون کے تحت 5 برس کی عمر میں کسی بچی کی شادی بھی ہو جائے اور اس سے ایک بچہ بھی پیدا ہوجا ئے ۔۔ ؟؟؟ ہاہاہاہاہاہاہا

 

لعنت الله علی الکاذبین ۔۔۔ خدا کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۔۔ بے شمار۔۔

 

چلیں جی اب عقلی و منطقی رد کے بعد آگے بڑھتے ہیں اورعلم الحدیث سے وہ تمام روایات کو جانچتے ہیں جو اس مبینہ نکاح برائے دفاعِ عمر بن خطاب تاریخ میں گھڑا گیا ۔۔

 

پہلی تحریر میں جو اہل سنت روایات میں نے پیش کی تھیں ان روایات اور اس کے علاوہ جتنی بھی اس افسانے پر روایات نقل ہوئی ہیں ان کا ایک ایک کرکے اہل سنت علماء سے رد پیش خدمت ہے ۔

 

محمد بن اسحاق :

 

جس کی روایت ذخائری العقبی میں درج ہے اس کے بارے میں یحیی قطان نے کہا ہے کہ

 

"اسحاق کذاب ہے ” ۔مالک نے کہا "ابن اسحاق دجّال ہے "۔ سلیمان تمیمی نے کہا "ابن اسحاق کذاب ہے "۔ دار قظنی نے کہا کہ قابل احتجاج نہیں ہے ۔

 

حوالہ : ميزان الاعتدال في نقد الرجال هو كتاب في الجرح والتعديل ألفه شمس الدين الذهبي ،جلد ۳ ،صفحہ ۲۱

 

 

زبیر بن بکار:

 

کتاب الإستيعاب في معرفة الأصحاب کی روایت میں ابو عمرو نے زبیر بن بکار سے روایت کیا ہے ۔

 

زبیر بن بکار حدیث گھڑتا تھا اس کی حدیث ناقابل قبول ہے!

 

حوالہ : ميزان الاعتدال في نقد الرجال هو كتاب في الجرح والتعديل ألفه شمس الدين الذهبي ، جلد ۱ ، صفحہ ۳۴۰

 

عمرو بن دینار:-

 

الاصابہ فی تمیز الصحابہ کی روایت جسے سفیان نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے ۔

 

امام احمد نے کہا ہے کہ ابن دینار ضعیف ہے ۔امام نسائی اور مّرہ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔

 

حوالہ : ميزان الاعتدال في نقد الرجال هو كتاب في الجرح والتعديل ألفه شمس الدين الذهبي ، جلد نمبر ۲ ،صفحہ ۲۸۷

 

محمد بن عمرواقدی:-

 

طبقات ابن سعد کی روایت جسے ابن سعد نے محمد بن عمر واقدی سے روایت کیا ہے

 

امام نسائی نے کہا ہے کہ واقدی کذاب ہے اور بغداد میں اپنی کذب بیانی کی وجہ سے مشہور ہے

 

حوالہ : تھذیب التھذیب ﻻبن حجر، جلد ۹ ص ۳۶۶

 

امام بخاری نے کہا ہے کہ واقدی متروک الحدیث ہے ۔

 

مرّہ نے کہا ہے کہ واقدی کوئی شے نہیں ہے

 

یحیی بن معین نے کہا واقدی ضعیف ہے ۔

 

ابن مدائنی کا قول ہے کہ واقدی کی بیس ہزار حدیثیں بے اصل ہیں ۔

 

امام شافعی نے کہاواقدی کی تمام کتب جھوٹ کا انبار ہے۔

 

صواعق محرقہ پہلی روایت کی کوئی سند ہی نہیں ہے

 

بہیقی کی روایت جس پر جرح کی جاچکی ہے اسی طرح ساتویں روایت پر بھی بحث ہوچکی ہے یہ روایت عموما مجہول الحال رواۃ سے مروی ہیں جن کے احوال بھی کتب رجال میں نہیں ملتے ہیں مثلا ابن سعد نے انس بن عیاض لیثی ۔عمار بن ابی عامر ،۔ابو حصین اور ابو خالد اسماعیل وغیرہ سےروایت کی میزان ا عتدال میں ان تمام روایوں کو مجہول الحال لکھا گیا ہے ۔

 

حوالہ : ميزان الاعتدال في نقد الرجال هو كتاب في الجرح والتعديل ألفه شمس الدين الذهبي، جلد ۳ ،صفحہ ۳۹۵

 

اسی طرح ہشام بن سعد بھی راوی ہے جسے نسائی نے ضعیف کہا ہے

 

(میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۵۴)

 

اسماعیل بن عبدالرحمان سدی کو یحیی بن معین نے ضعیف لکھا ہے ۔لیث نے کاذب قرار دیا ہے ۔

 

(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۰)

 

عطا بن مسلم خراسانی کو بخاری نے ضعیف قرار دیا ہے ۔اس کی حدیث سے احتجاج باطل ہے ۔

 

(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۹)

 

عبید اللہ بن موسی کوامام احمد بن حنبل صاحبِ تخلیط کہا ہے ۔اس کی حدیث بری ترین ہیں

 

(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۷۰)

 

عبدالرحمان بن زیدبن اسلم کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے ۔

 

(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۰۵)

 

اسی طرح ابن شہاب زہری کا ناصبی ہونا اور دشمن علی ہونا مشہور ہے۔

 

تو یہ ہو گیا عقد ام کلثوم کے حوالے سے اہل سنت کتابوں میں موجود روایات کا رجالی آپریشن بھی ۔۔ جس پر مختصر یہ لکھ کر آگے بڑھوں کہ عقد ام کلثوم کی تمام روایات خود اہل سنت علمائے رجال ہاں ضعیف السند باطل ، جھوٹی اور مردود ہیں ۔ جو کسی طور بھی قابل قبول نہیں ۔۔

 

اب بات ہوجائے عقد عمر کے ان باراتیوں پر جن کے لئے یہ کہاوت ہےکہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارایعنی شیعہ کتابوں میں اس نکاح کا ذکر کہ امام علی ؑ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کر دیا تھا (معاذاللہ )

 

تو اے جاہل براتیوں ۔۔ پہلے ایک بات اچھی طرح سے یہ سمجھ لو کہ شیعوں کا اپنی کتابوں کے بارے میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ ہماری کتابیں قرآن کے بعد سب سے صحیح کتابیں ہیں ۔ نہ ہی ہم شیعہ اپنی چار کتابوںکو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔تبھی تشیع میں اجتہاد کا نظام آج تک قائم ہے اور ہر ایک حدیث کی جانچ پڑتال کو عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

 

جبکہ تم لوگوں کا اپنی کتابوں پر اُن کے صحیح ہونے کا دعویٰ ہے یعنی تم اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہو اوراُن چھ میں سے دو کوتو صحیحن کہتے نہیں تھکتے ۔ حالانکہ ان صحیح کتابوں میں لاتعداد غلط اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جو اب تک فرانس ، ہالینڈ اور مغربی دنیا میں موجود اسلام دشمنوں کو آج بھی توہین رسالت کا مواد مہیا کر رہی ہیں ۔۔

 

عمر کےاس مبینہ نکاح کی خوشی میں ناچتےجاہل باراتیوں ۔۔ میں تمہیں شیعہ تنکے کا سہارا بھی نہیں لینے دوں گا ، کیونکہ اول تو تمہارے لئے شیعہ کتابیں حجت ہی نہیں دوسرا یہ کہ جو تمہارے لئے حجت ہیں ان کا تفصیلی آپریشن میں پہلے ہی کر چکا ہوں ۔۔ لیکن چلو ۔۔ یہ شیعہ تنکا بھی توڑ ہی ڈالتے ہیں ۔۔

 

وہ جو تم شیعہ روایات کا حوالہ دیتے ہو ذرا ساتھ میں ان کا رجال بھی شیعہ علماء سے نقل کر دیا کرو جیسے میں نے تمہاری کتابوں میں موجود روایات کا تمہارے ہی علمائے حدیث و رجال سے پیش کیا ہے ۔ تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی لگے ہاتھوں ہی ہو جائے ۔۔ پر تم ایسا کیوں کرو گے ؟؟ ہے نا

 

چلو پھر ایک ایک کر کے میں ہی ان روایات کی سند پر بحث کر لیتا ہوں اس امید پر کہ اب آئندہ جب بھی تم ہماری کسی شیعہ روایت کو پیش کرو تو ساتھ میں اس کی سند پر ہمارے علماء کی رائے بھی پیش کر سکو (جو تم کبھی کرو گے ہی نہیں )۔۔ خیر میں ہی حجت تمام کر دوں ۔۔ تو شروع کرتے ہیں ۔

 

1- شیعہ کتب میں عدت والی روایات کا رد ۔

 

فروع کافی ،استفسار وتہذیب کی جو روایت عدت گزارنے کے مسئلہ میں تم پیش کرتے ہو اس کے راوی مجروح ومقدوح اور فاسد العقیدہ ہیں ۔

 

فروع کافی کے راوی حمید بن زیاد اور ابن سماعہ ہیں ان دونوں کا تعلق مذہب واقفی سے ہے جن کو کفر و زندقہ تک مماثلت ہے جیسا کہ رجال ِمامقانی جلد اول ص ۳۷۸ پر امام رضا علیہ السلام کی احادیث سے ثابت ہے کہ اسی راویت کا ایک راوی حسن بن محمد بن سماعہ ہے جو علماء رجال کے نزدیک بالاتفاق واقفی المذہب تھا ۔

 

حوالہ : رجال کشی، صفحہ ۲۹۳

 

اسی طرح دوسری روایت کا راوی ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا

 

حوالہ : رجال کشی ص ۱۸۴

 

یہ روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا ۔ نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ۔ابن داؤد نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

 

حوالہ : تنقیح المقال ،جلد ۵۷

 

اور مقیاس الدرایہ ص ۸۴ پر ہے کہ زیدی ،واقفی ،ناصبی ،ایک منزلت پر ہیں ۔

 

 

 

2- زید اور ام کلثوم کا ایک ہی وقت میں فوت ہونے والی روایت کا رد

 

اس روایت کا راوی سعید بن سالم قداح ہے جو مجہول الحال ہے

 

حوالہ: رجال مامقانی ، جلد ۱، صفحہ ۶۵

 

3- مسالک الافہام الى شرائع الاسلام میں نکاح والی روایت کا رد

 

مسالک الافہام شیعہ علماء میں معتبر شمار نہیں ہوتی اس میں شارح کی اپنی رائے کا ذکر ہے جو حجت قرار نہیں پاسکتا ہے ۔حالانکہ اس کے خلاف کثرت سے شواہد موجود ہیں ۔

 

 

 

4- شہید ثالث کی کتاب سے پیش کی جانے والی روایت کا رد

 

قاضی نوراللہ شوستری نےیہ بیان اس نکاح کی تردید میں دیا ہے اور "اگر” سے مفروضہ قائم کیا ہے کہ بالفرض محال یعنی یہاں فرض کیا ہے ناکہ نکاح کے ہونے پر دلیل پیش کی ہے ۔

 

 

 

5- علامہ ابن شہر اشوب کی کتاب مناقب آل ابی طالبؑ میں موجود روایت کا رد

 

علامہ شہر آشوب نے مناقب میں شیعہ وسنی دونوں طرح کی روایات نقل کی ہیں ۔یہ کتاب ذاتی عقید ے سے بالا تر ہوکر نقل برائے نقل پر مبنی ہے۔ اس روایت کے بعد یہ تحریر کیا گیا ہے کہ "علامہ شہر آشوب نے یہ رائے صاحب شافی اور صاحب الانوار کی لکھی ہے ۔نہ کہ اپنا عقیدہ ۔

 

 

 

6- علم الہدی کی کتاب سے پیش کی جانی والی روایت کا رد

 

علامہ مرتضی علم الہدی نے محض اس قسم کے نکاح کی صورت کو جائز قرار دینا فرض کیا ہے نہ کہ عمر اور جناب ِ ام کلثوم کے عقد کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔

 

 

 

7- شیخ عباس قمی کی کتاب سے پیش کی جانے والی روایت کا رد

 

شیخ عباس قمی نے صرف اس قصّے کا کتابوں میں لکھا ہونا بیان کیا ہے نہ کہ تائید کا اظہار ۔

 

 

 

8- کتاب منتخب التورایخ سے پیش کی جانی والی روایت کا رد

 

یہ کتاب مناظر انہ ہے نہ محققانہ بلکہ ہر طرح کی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے لہذا حجت قرار نہیں پاسکتی ۔

 

 

 

9- علامہ مجلسی کی کتاب سے پیش کی جانے والی روایت کا رد

 

جو روایت علامہ کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے وہ صحیح السند نہیں جس کا بیان اوپر کیا جا چکا ہے وہ تمام ضعیف روایات ہیں ۔

 

 

تو یہ تھا شیعہ کتب میں موجود وہ نازک و خستہ تنکے جس کو پکڑ کر تم اس عقد کو ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ پر ہائے افسوس کے وہ تنکے بھی اسی افسانوی نکاح میں فسانہ ہو گئے ۔۔

 

اب آخر میں بس ایک نقطے کی وضاحت اور پھر زحمت تمام ۔۔

 

اگر عمر نے کسی ام کلثوم نامی لڑکی سے نکاح کیا تھا تو آخر وہ تھیں کون ؟

 

تو قارئین کرام تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمرسے منسوب ام کلثوم نا م کی کئی بیویوں کا تذکرہ بھی موجود ہے ، جیسے ۔۔

 

۱- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔

 

(تاریخ الخمیس، جلد ۲ ،ص ۲۵۱)

 

۲-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔

 

(تاریخ کامل، جلد ۳ ،ص ۲۲)

 

۳- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔

 

زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے رسول اللہ سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا ۔”جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور عمربن خطاب نے ان سےنکاح کرلیا۔

 

(تفسیر کبیر ، امام فخرالدین رازی ،جلد ۸ – شرح بخاری، امام قسطلانی، جلد۴ ،ص ۳۴۹)

 

۴- ام کلثوم بنت راہب۔

 

(سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد )

 

۵- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ

 

(طبقات الاتقیاء ابن جہاں -اعلام النساء ،جلد ۴ ، ص ۲۵۰)

 

کتاب ہدایۃ السعداء میں علامہ دولت آبادی لکھتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس جو کہ پہلے خلیفہ ابوبکر کی بیوہ تھی ان کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا۔

 

عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔

 

۱-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ۲ ص ۲۶۷

 

۲- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ۳ ص ۲۱

 

۳:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ۲ ص ۷۹

 

بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔

 

۱- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ۵۰

 

۲- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ۱۶۱

 

۳- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ۲ ص ۲۷۶

 

۴-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ۲۷۶۔الجزء الثالث ص ۲۷ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ۲۱۱ ترجمہ الشماخ ۔

 

کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔

 

تو ثابت ہوا کہ سنہ ۱۷ ہجری میں جس چاریا پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم کہ جس کا عقد عمر سے ہوا وہ ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور مولا علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ چونکہ عرب ثقافت و رواج کے مطابق لے پالک لڑکی کو پالنے والے کی بیٹی شمار کیا جاتا تھا توان کو بنت علی کہا گیا ۔

 

تحریر کو ختم کرتے ہوئے میں اس نکاح کے دور حاضر کے باراتیوں کو ایک پھکی ضرور دوں گا اور وہ بھی انہی کے شیخ الحدیث، آئمہ اور محققین کی رائے سے ۔۔

 

شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب رجال مشکواۃ کے صفحہ ۱۱۵ پر،امام ابن اثیر اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے صفحہ ۲۳ پراور جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس نکاح کی اصلیت یوں بیان کرتے ہیں ۔

 

اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد

 

ترجمہ : اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اورایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوئے ۔ابو بکر کے بعد آپ علی ابن ابی طالبؑ کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور عمربن خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔

 

تو اب اس افسانے کا جنازہ یہاں دفن کرتے ہوئے تمام اس مبینہ نکاح کے حاضر باراتیوں کے لیئے فاتحہ پڑھ کر آپ سب سے دعاؤں کا طالب ہوں۔

 

والسلام ، غلامِ ام کلثوم بنت امام علی ؑ۔۔ #ابوعبداللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے