جب میں نے سیدانی کے غیر سید مومن سے نکاح کے حوالے سے اپنا اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تو کچھ نادان مومنین و مومنات شدید تنقید و مذمت کے نشتر لے کر مجھ پر حملہ آور ہو گئے.. جبکہ میں نے اپنی جانب سے کچھ نہیں لکھا و کہا.. بلکہ اسی شریعت کا حکم پیش کیا کہ جس کو بچانے کی خاطر آقا حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے پاک خاندان کی قربانی پیش کی تھی ..
یہاں میں ایک بات اور واضح کر دوں کہ لطفِ پروردگار سے میں بھی نجیب الطرفین سید زادہ ہوں اور مجھے ان مومنین و مومنات سے کوئی شکوہ بھی نہیں کیونکہ یہ سب یقیناً ان کی جانب سے سادات کی محبت اور ان کے احترام کی بنا پر ہے جسے کچھ جاہل ذاکرین نے اپنی مکروہ مفادات کے لیے استعمال کیا تاکہ کسی طرح سے سادات کا عام شیعوں سے بائیکاٹ کرایا جا سکے.. جس کے نتیجے میں ایسی مذمت سامنے آئی..
خیر..
اب میں یہاں اپنا ایک مکالمہ پیش کر رہا ہوں جو کہ ایک نادان مگر تھوڑے پڑھے لکھے مومن بھائی سے ہوا تھا.. اور امید کرتا ہوں کہ انشاءاللہ اس مکالمے کو پڑھ کر بہت سے مومنین و مومنات کو سیدانی کا غیرِ سید مومن سے نکاح نا صرف جائز بلکہ جو اس کے مخالفین ہیں ان کے چہرے بھی بےنقاب ہو جائیں گے.
ملاحظہ فرمائیں..
شیعہ دوست : ابوعبدالله آپ کا شادی کے مسئلے میں سید زادی کا غیر سید سے نکاح پر کیا نظریہ ہے؟
ابوعبداللہ : میرے دوست.. میرے ذاتی نظریات کی کیا اہمیت و حیثیت ہے شرعی احکام کے آگے..؟؟ بلکہ جو شریعت کا حکم ہوگا اُسی کے مطابق مجھے اپنا نظریہ رکھنا ہے کیونکہ میں ولایت کا اقرار کر چکا ہوں یعنی اپنی مرضی کو معصومین علیہم السلام کی اطاعت پر وار چکا ہوں.. پھر میری کیا مجال کہ اپنے ناقص نظریات کو شریعت کے مقابلے میں پیش کروں.
شیعہ دوست : درست کہا پر مجھے میرا جواب نہیں ملا..
ابوعبداللہ : سیدھا سیدھا سا جواب ہے بھائی کہ مکتب اہل بیت میں ایک سیدانی کا غیرِ سید مومن سے نکاح بالکل ویسے ہی جائز ہے جیسے سیدانی کا سید سے.. یعنی شادی کے معاملے میں ایسی کوئی شرعی پابندی نہیں.
شیعہ دوست : لیکن آپ تو خود سید ہیں پھر یہ کیسی فضول اور احترامِ سادات کے خلاف بات کر رہے ہیں.. یہ تو سادات کی توہین ہے کہ سیدانی کا نکاح کسی عام امتی غیر سید سے ہو.. اور آپ اسے جائز کہہ رہے ہیں؟
ابوعبداللہ : محترم میں نہیں کہہ رہا بلکہ شریعت محمدی کہہ رہی ہے..
شیعہ دوست : تو آپ ثابت کریں کہ یہ کیسے جائز ہے؟؟
ابوعبداللہ : میرے بھائی دنیا میں کوئی عمل اور شے تب تک حلال و جائز ہوتی ہے جب تک اس پر حرام کا حکم نہیں آ جاتا.. مثال کے طور پر شریعت میں کہیں نہیں آیا کہ موبائل استعمال کرنا، اے سی میں بیٹھنا، ہوائی جہاز میں سفر کرنا وغیرہ جائز ہے تبھی ہم آج یہ سب کر رہے ہیں بلکہ اگر ان سب پر حرام کا حکم آتا تو پھر یہ حرام ہوتے تو جو کسی عمل کو حرام قرار دے تو دلیل اسے پیش کرنا ہوگی کہ اس حکمِ معصوم کی بنا پر یہ حرام ہے. تو دلیل آپ پیش کریں.
شیعہ دوست : (تھوڑا سا گھبرا گیا) اچھا تو کیا آپ نے قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی چھٹی آیت نہیں پڑھی کہ نبی کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں.. ماں کی بیٹیاں اس حکم سے مومنین کی بہنیں قرار پاتی ہیں یعنی سید زادیاں اور بہنوں سے نکاح شریعت میں حرام ہے.
ابوعبداللہ : ارے بھائی کیا کر رہے ہیں آپ… کس کا کس پر اطلاق کر رہے ہیں اپنی طرف سے؟؟؟ تھوڑا تو عقل سے کام لیں..
اگر آپ کی یہی منطق مان لی جائے تو پھر تمام سادات میں مرد و عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن قرار پاتے ہیں کیونکہ کہ قرآن کا حکم مومنین سے منسوب ہے اور مومنین میں سادات بھی شامل ہیں.
جبکہ یہ حکم فقط اور فقط ازواج رسول کے بارے میں ہے ناکہ خود رسول بھی اس میں شامل نہیں ورنہ جب ان کی ازواج مومنین کی مائیں ہونگی تو لازمی طور پر رسول اللہ مومنین کے باپ قرار پائیں گے اور باپ پر بیٹیاں حرام ہیں تبھی اللہ نے رسول کے فرمایا، محمد کسی کے باپ نہیں مگر یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ استثنیٰ اسی لیے دیا گیا رسول کو تاکہ شادیاں کر سکیں۔
یہ کس طرح کی جہالت کو قرآن کی آیت سے منسوب کر رہے ہیں آپ ؟؟؟
شیعہ دوست : (اب واقعی تھوڑا سا چکرا گیا کہ اب کیا کہے ) فرمانے لگے ۔۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن رسول سے لے کر کسی بھی امام تک کسی نے بھی اپنی بیٹیاں غیر سادات میں نہیں دیں کیونکہ جب حضرت جعفرطیار شھید ہوئے تو رسول اللہ دل جوئی کے لیئے مولا علی کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گئے تھے اور فرمایا تھا پریشان نہ ہوں ہماری بیٹیاں ہمارے بیٹوں کے لئے ہیں اور ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لئے اور علی ہاں تمہاری شادیاں ہوں گی ۔۔ تو پھر اب آپ خود بتائیں کہ یہاں رسول نے واضح کر دیا کہ ہماری بیٹیا ہمارے بیٹوں کے لئے ہیں ۔۔
ابوعبداللہ : اب میں مسکرا دیا ۔۔ اور کہا قبلہ یہ سیدانی پر غیر سید سے نکاح نہ ہونے پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ آپ نے خود کہا کہ رسول فرماتے ہیں ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لئے اور ہماری بیٹیاں ہمارے بیٹوں کے لئے ۔۔
تو مولا حسن سے لے کر امام حسن عسکری باشمول امام علیؑ سوائے امام زین العابدینؑ کے علاوہ سب کی ازواج غیر سادات تھیں جبکہ امام سجاد کی زوجہ فاطمہ بنت امام حسنؑ ہیں جو امام باقرؑ کی والدہ ماجدہ ہیں ۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل بیت علیہم السلام رسول اللہ کا ایک حکم مانیں اور دوسرا نہ مانیں یعنی اپنی بیٹیاں تو غیر سادات میں نہ دیں لیکن رسول کے حکم کے برخلاف خود غیر سیدانی سے شادیاں کریں ؟؟ کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے ؟؟
شیعہ دوست : عجیب جھنجھلا کر بولا اسے چھوڑیں کہ دیگر اہل بیت کے مردوں نے اپنی شادیاں غیر سادات میں کی ۔۔ یہ دکھائیں کہ کیا کسی سیدانی کا نکاح انہوں نے غیر سید سے کیا ؟؟
ابوعبداللہ : میں نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔ واہ واہ ۔۔ کیسے چھوڑیں جبکہ آپ ہی نے پوری حدیث بیان کی تو کیسے میں ایک حصہ قبول کر لوں اور ایک حصے کو چھوڑ دوں ؟؟
خیر۔۔۔ جانتا ہوں آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ۔۔ بے فکر رہیں میرے پاس ہے کیونکہ میں نے دین قرآن و حدیث اور سیرتِ معصومینؑ سے لیا ہے ناکہ کسی جاہل اور فاسق ذاکر سے کہ جس کے پاس لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔۔
شیعہ دوست : تو جواب دیں ۔۔ دکھائیں کس سید زادی کا نکاح غیر سید میں ہوا ؟؟
ابوعبداللہ : تو سب سے پہلے میں آپ کو رسول اللہ کے دور سے پیش کر دیتا ہوں اور وہ بھی ایسا نکاح جسے خود قرآن نے نقل کیا ہے۔
قرآنی دلیل – سوره احزاب کی آیت 36 اور 37 پڑھیں کہ پورے قرآن میں واحد ایک صحابی کا نام اللہ نے اپنی کتاب میں لیا ہے اور وہ بھی اسی نکاح کے بیان میں ۔۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے
” آپ اس سے ڈریں (بہرحال) جب زید نے اس عورت (زینب) سے اپنی حاجت پوری کر لی (اسے طلاق دے دی) تو ہم نے اس خاتون کی شادی آپ سے کر دی تاکہ اہلِ ایمان پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے (نکاح کرنے) کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہ جائے….
تو دیکھیں کہ رسول اللہ نے زینب بنت جحش جو کہ آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور سیدہ تھیں اور زید ایک آزاد ہونے والا غلام تھا جو جنابِ خدیجہؑ نے رسول کو بخشا تھا اس سے شادی کرائی تھی جس کا قرآن میں ذکر موجود ہے۔
اب دوسرا حوالہ :
ہماری اہل تشیع کی کتب اربعہ میں سے ایک کتاب اصول کافی ہے اس میں یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں کہ :
عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) زوج المقداد بن الاسود ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب ، وانما زوّجه لتتّضع المناكح ، وليتأسّوا برسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وليعلموا أن أكرمهم عند الله أتقاهم .
ترجمہ: امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ : رسول (ص) نے مقداد بن اسود کا نکاح ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب سے کروایا، اور یہ نکاح اس لیئے کروایا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے۔ (نہ کہ قریشی یا ھاشمی )
حوالہ جات: اصول کافی جلد 5 صفحہ 344، یہی روایت وسائل الشیعہ کی حدیث نمبر 25057 بھی موجود ہے
اب اسی کا تیسرا حوالہ: جوکہ علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی جلد 22 صفحہ 265 پر نقل کیا ہے کہ
حضرت مقداد کا ضباعہ سے نکاح کے وقت رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:
میں اپنے چچا کی بیٹی ضباعہ کی شادی مقداد سے صرف اس لئے کی تاکہ لوگ حسب و نسب کا لحاظ کئے بغیر ہر مومن کو بیٹی دیں !
میرے بھائی ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پیغمبر اسلام کی 6 پھوپھیاں ، جو کہ حضرت عبدالمطلبؑ کی اولاد تھیں سب کی غیر سادات میں شادی ہوئی جن کے نام یہ ہیں، جنابِ امیمہ ، جناب ام حکیم ، جناب برہ ، جناب عاتکہ ، جناب صفیہ اور جناب اروہ ۔
رسول اللہ کے چچا حضرت حمزہؑ کی بیٹی امیمہ کی شادی غیر ہاشمی اور غیر سید مرد سلیمہ سے ہوئی تھی اور حضرتِ ابوطالبؑ کی اپنی بیٹی ام ہانی کہ جن کے گھر سے رسول نے سفر معراج شروع کیا تھا ان کا نکاح بھی حبیرہ بن عمرو سے ہوا تھا جو کہ غیر سید تھے ۔
تو بھائی میرے خیال سے اب کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا کہ آپ اس غلط عقیدے کہ جس کی وجہ سے آج سیدانیاں اپنے گھروں میں ضعیف ہو رہی ہیں چھوڑ کر حقیقی تعلیماتِ محمد و آل محمدؑ کو اپنائیں اور جاہل ذاکرین کی باتوں میں آنا چھوڑ دیں ۔۔
شیعہ دوست : ہممممم لیکن ابوعبداللہ میں نے تو آپ کو سیدانی کا کہا تھا جبکہ آپ نے ایک بھی حوالہ کسی سیدانی کا نہیں دیا ؟؟
ابوعبداللہ : میں نے حیران ہوکر پوچھا ، ارے دوست میں نے جتنے حوالے قرآن و حدیث سے پیش کئے ہیں وہ تمام کی تمام خواتین ہاشمی سید زادیاں ہی ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ سیدانی کا حوالہ نہیں دیا، عجیب؟
شیعہ دوست : ابوعبداللہ، سادات وہ ہوتے ہیں جن کی نسل مولا علیؑ اور جنابِ فاطمہؑ سے چلی ہے ان کے حوالے دیں
ابوعبداللہ : میں نے افسوس کے ساتھ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔ یا خدا ۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟
کیا آپ رسولِ خدا، خود مولا علیؑ اور باب الحوائج مولا عباسؑ کو سادات میں شمار نہیں کرتے ؟؟ کس قسم کی بیہودہ بات ہے یہ ۔۔
اگر آپ انہی کو صرف سادات میں شمار کریں گے تو پھر بھی پھنس جائیں گے کیونکہ مولا امیرالمومنینؑ نے حضرتِ زینبؑ کی شادی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالبؑ سے کی تھی جو کہ آپ کے مطابق معاذاللہ سید شمار نہیں ہوتے ۔۔ اب کیا کہیں گے ۔۔ مسئلہ تو آپ نے خود ہی حل کردیا ۔۔
شیعہ دوست : ایک دم گھبرا کر بھکھلا کے کہنے لگا ۔۔ اچھا اچھا مان لیا کہ تمام بنی ہاشم اہل سادات ہیں ۔۔ تو کوئی حوالہ دیں کہ کس امام زادی کا نکاح غیر سادات میں ہوا ؟؟
ابوعبداللہ : میں نے مسکرا کر کہا ۔۔ پہلے جس پر ڈٹے رہتے ہیں، میرے جواب پر ایک دم پلٹ کیوں جاتے ہیں ؟؟ خیر ۔۔ چلیں دو اور روایت پیش کر دیتا ہوں تاکہ مکمل حجت تمام ہو جائے آپ پر ۔۔
پہلی روایت :
عمدہ الطالب فی انساب ابی الطالب اور کتاب المجدی فی الأنساب میں موجود ہے کہ امام حسنؑ نے خود اپنی بیٹی رقیه بنت الحسن کی شادی عمرو بن المنذر سے کی تھی جو کہ ہاشمی بھی نہیں تھے۔
حوالہ : علی بن محمد علوی، المجدی فی الأنساب صفحہ ۲۰
دوسری روایت: دائود بن علی نے امام صادقؑ سے کہا کہ آپؑ نے فلاں اموی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو امامؑ نے جواب دیا ہاں ، میں نے ایسا کیا کیونکہ رسول اللہ نے بھی عثمان کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تھا (کیونکہ وہ بھی اموی تھے) اور میرے لئے رسول اللہ کی سیرت میں اسوہ موجود ہے۔
حوالہ: رجال الكشى ص 241، بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ١٠٠ – الصفحة ٣٧٩
(نوٹ : اب جیسے ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں )
شیعہ دوست : یا خدا ۔۔ ارے ابوعبداللہ یہ کون سی احادیث پیش کر رہے جو آج تک کبھی سنی ہی نہیں۔
ابوعبداللہ : کسی بھی چیز یا بات سے آپ کا لاعلم ہونا اس پر دلیل نہیں ہوتی کہ وہ موجود نہیں ہے البتہ جاہل ذاکرین کو اتنا علم نہیں یا اگر ہے بھی تو کبھی بھی پیش نہیں کریں گے ورنہ لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنا کاروبار کیسے چلائیں گے ۔۔ سب حوالے دیئے ہیں جا کر خود دیکھیں اور پڑھیں۔
شیعہ دوست : اچھا یاد آیا ۔۔ امام موسیٰ کاظمؑ کی جو اٹھارہ بیٹیاں تھیں ان کی بھی تو شادی نہیں ہو سکی تھی کیونکہ امام نے وصیت فرمائی تھی کہ تم شادیاں نہ کرنا کہ تمہارا کوئی سید کفو موجود نہیں۔
اب بتائیں اب کیا کہیں گے آپ ؟؟
ابوعبداللہ : (مسکرا کر) میں شروع سے یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے اب تک امامِ کاظمؑ کی بیٹیوں کو اپنی دلیل کیوں نہیں بنایا جبکہ کچھ جاہل ذاکرین سب سے زیادہ اسی سے عام عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔۔ لیکن خیر آخر میں سوال کر ہی ڈالا آپ نے ۔۔
تو جواب یہ ہے کہ ۔۔ بھائی جان یہ جو کچھ جاہل ذاکرین امام کاظمؑ والی روایت پیش کرتے ہیں یہ کسی شیعہ کتاب میں موجود نہیں بلکہ یہ ایک اہل سنت تاریخ دان یعقوبی کی تاریخ یعقوبی میں درج ہے اور یہ اہل سنت عالم ہے، اور جانتے ہیں یہ کون تھا ۔۔ یہ بنوعباس کا آفیشل کاتب تھا ۔۔
تو کیا آپ کے لئے یہ اہل سنت بلکہ دشمنان اور قاتلانِ امام بنو عباس کا درباری کاتب اتنا معتبر ہو گیا کہ یہ جاہل ذاکرین اپنے فرسودہ عقائد کو اس کی پیش کی گئی روایت سے دلیل قرار دیں گے ؟؟؟ جواب دیں
شیعہ دوست : (اب میرے دوست کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ قائل ہو رہا ہے ) ۔۔
کہنے لگا ۔ ٹھیک ہے ابوعبداللہ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ان 18 بیٹوں کی شادی نہیں ہوئی تھی تو یہ بتائیں کہ کیوں نہ ہو سکیں، میں نے مان لیا کہ اس کی وجہ سید و غیر سید نہیں لیکن سوال تو ہے نا کہ شادیاں نہیں ہوئیں؟
ابوعبداللہ : میرے بھائی تاریخ کا مطالعہ کریں اور شیعہ علماء کی کتابیں پڑھیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس وقت شدید ترین مصائب کا دور تھا، حکومتی کارندے ہر وقت امام کاظمؑ کے گھر پر نظر رکھا کرتے تھے اور کسی کا امام سے ملنا اس کی موت کا پروانہ بن جاتا تھا ۔۔
ایک بار تو خود مامون نے امام سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیوں نہیں کیں تو امام نے اسے جواب دیا تھا کہ ۔۔ شدید مفلسی و غربت کی وجہ سے ۔۔
شیعہ دوست : جزاک اللہ ابوعبداللہ ۔۔ بہت شکریہ آپ نے میری بہت بڑی الجھن دور کر دی اور آپ نے درست کہا تھا کہ یہ سب سادات کے خلاف ایک سازش ہے۔
آخر میں بس ایک سوال کا اور جواب دے دیں جو اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اگر سیدانی کی غیر سید سے شادی ہو جائے تو اس کے بچوں کا کیا حکم ہوگا کیونکہ سیدانی پر صدقہ حرام ہے ، اگر اس کا شوہر اگر صدقہ کی رقم اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرے گا تو یہ کیسے جائز ہو جائے گا؟
ابوعبداللہ : ارے میرے عزیز دوست، آپ میرے نہیں بلکہ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے میری باتوں کو قبول کر لیا ۔۔ سلامت رہیں
اور جو سوال آپ نے ابھی کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک سادات پر صدقہ حرام ہے اور غیر سید پر جائز ہے ۔۔ اب اگر کبھی ایسی صورتحال ہو جائے کہ اتنی غربت کا سامنا کرنا پڑے کہ سیدانی کا شوہر زکات اور صدقہ لے کر گھر آئے تو اس میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے، پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ صدقات میں سے فقط زکات اور فطرہ لینا سادات پر حرام ہے ناکہ مستحب صدقات۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ جب غیر سید نے زکات و صدقات لے لیے تو یہ اب اس مال کا مالک بن گیا کیونکہ صدقہ و زکات اس وقت تک صدقہ ہوتے ہیں جب تک وہ صاحب حق کے پاس نہ پہنچ جائیں اور جیسے ہی وہ محتاج کے ہاتھ میں آتے ہیں وہ صدقے سے بدل کر اس شخص کا اپنا مال بن جاتے ہیں جسے وہ کسی پر بھی خرچ کر سکتا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی غیر سید کی سیدانی بیوی اگر ضرورت مند ہو تو وہ سہم سادات خمس سے لے سکتی ہے جبکہ اس کا شوہر اور بچے نہیں ۔ اب اگر وہ لے لے تو یہ اس کا مال ہو گیا ۔۔ اب وہ اسے اپنے شوہر یا بچوں پر خرچ کر سکتی ہے ۔
امید ہے ۔۔ آپ اب حق جان چکے ہونگے ۔۔ مجھ حقیر کو دعاؤں میں یاد رکھیں
والسلام #ابوعبداللہ