نوٹ: یہ جواب دفاعِ تشیع میں برادر ابوعبداللہ کی جانب سے انجینئر محمد علی مرزا کو دیا گیا ہے
کوئی مسلمان اس حدیث کی سند تک نہیں مانگے گا جو ہم سب بچپن سے سنتے آ رہے ہیں یعنی ” نماز دین کا ستون ہے ” یعنی دین کی امارت نماز کے صحیح ہونے سے مشروط ہے اگر نماز غلط تو دین گیا ۔۔۔۔کیوں صحیح کہا نا میں نے ۔۔
اب اگر ساتھ میں میں یہ کہوں کہ وضو نماز کا ستون ہے تو کیا یہ غلط ہوگا؟ یقیناً نہیں کیونکہ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ نماز کے لئے وضو واجب ہے ۔ تو اب میرا مسلمانوں سے ایک اور سوال ہے ، یہ بتائیں کہ اگر وضو غلط ہو جائے تو کیا نماز صحیح ہو سکتی ہے ؟؟
یعنی وضو غلط تو نماز غلط اور نماز غلط تو دین کا ستون گر گیا ۔تو دین کو بچانا ہے تو نماز کو صحیح انجام دینا اور اگر نماز کو بچانا ہے تو پھر وضو کو بطور اولیٰ بالکل صحیح بجالانا ہے یاہمارے بھائیوں کی رائج جملے میں "صحیح وضو بنانا ہوگا ” جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
تو اب ایک مشہور زمانہ انجینئر محمدعلی مرزا نامی محقق کو شیعہ وضو یعنی اصل وضو جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اس پر جواب دے کر خود ان حضرت اور تمام مسلمانوں کو حق کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔۔
انجینئر محمد علی مرزا صاحب ایک صاحب فہم اور قدرے بہتر اہل سنت محقق ہیں اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ علی بھائی نے جس انداز سے بنو امیہ اور خاص طور پر صفین و جمل میں امام علیؑ کا دفاع کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین ہے جس پر ہر محب اہل بیت ؑ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
مگر کچھ جگہوں پر برادر انجینئر صاحب شاید کسی مجبوری کی بنا پر مزید کھل کر حق بیان کرنے سے قاصر ہیں اور لا محالہ حق کو چھپانا اور خود پر تشیع کا الزام لگنے کے ڈر سے عبادات جیسے مسائل میں بھی تقیہ کو نہ مانتے ہوئے بھی تقیہ سے کام لینا میرے حسن ظن کے مطابق شاید اُن کی مجبوری ہے جو کہ قطعاً ان جیسے ریسرچ اسکولر کو زیب نہیں دیتا ۔
اسی اثنا میں ان کی وضو والی ویڈیو میری اس تمہید کا کھلا ثبوت ہے جس کا جواب میں انہیں اسی ویڈیو کے نیچے دے چکا تھا جس پرکافی لوگوں کے کمنٹس اور لائیکس بھی آئے پر انجینئر صاحب نے وہاں کوئی جواب نہیں دیا اور میرے لکھنے کے باوجود دوسری ویڈیو بنا کر نہ ہی میرا رَد پیش کیا اور نہ ہی رجوع کر کے درست طریقہ وضو پر عمل کیا۔
تمہید کافی طویل ہوتی جا رہی ہے تو مختصر کرتے ہوئے انجینئر محمد علی مرزا بھائی کو اس تحریر سے ایک بار پھر مفصل دعوتِ رجوع کا موقع دے رہا ہوں اور ساتھ میرے پڑھنے والوں کو یہ انتباہ بھی کہ یہ تحریر پوری کوشش کے باوجود بھی آسان نہ ہوگی کیونکہ اس میں علمِ قرآن اور عربی قواعد کی بحث مجھے کرنی ہے ۔
تو سب سے پہلے انجینئر بھائی کی خدمت میں قرآن پاک کی وہی محکم آیت پیش خدمت ہے جس کی تشریح و تفسیر میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا اور اپنے کروڑوں فینز کو جان بوجھ کر غلط طریقہ وضو پر اسرار کیا۔
تو شروع کرتا ہوں ۔۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں خدا طریقہ وضو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔
یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ أَیدِیکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَین
ترجمہ : اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔
یہاں پر میں اس آیت میں بیان ہوئی کچھ قرآنی اصطلاحات کو آسان لفظوں میں بھی بیان کردوں تاکہ عام قارئیں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔۔
آیت کے پہلے حصے میں جہاں چہرے اور ہاتھوں کو دھونے کا حکم ہے اُس حصے میں استعمال ہوئے الفاظ کی تشریح
فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ أَیدِیکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ
(اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو) اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔
مذکورہ حصے میں لفظ "وجہ”ہر چیز کے سامنے والے حصے کو کہتے ہیں۔ وجہ کی جمع وجوہ آتی ہے نیز چہرے کو بھی وجہ کہا جاتا ہے۔
لفظ "ید” کندھے سے لے کر انگلیوں کے سروں تک ہاتھ کو کہتے ہیں ۔
لفظ "مرافق”مرفق کی جمع ہے۔ جب کوئی شخص کُہنی کے سہارے بیٹھے تو عربی میں کہا جاتا ہے ارتفق الرجل۔ چونکہ اس سے سہارے کا کام لیا جاتا ہے اسی مناسبت سے کہنی کو مرفق کہا جاتا ہے ۔
آیت کے دوسرے حصہ میں جہاں سر اور پاؤں کا مسح کرنے کا حکم ہے اُس حصے میں استعمال ہوئے الفاظ کی تشریح
وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَین
اور سروں کے بعض حصے کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔
لفظ ” راس” معروف جسمانی عضو کا نام ہے۔ یہ مذکر ہے اور اس کی جمع ارؤس و رءوس آتی ہے ۔ یعنی جسم کےکسی حصے کا اٹھا ہوا ہونا راس کہلاتا ہے۔
لفظ ” کعب” ک ع ب بلندی اور چیز کی اونچائی پر دلالت کرتی ہے، اسی سے کعب الرجل ہے اور یہ وہ پنڈلی کی دو ہڈیاں ہیں جو پاؤں اور پنڈلی کے شروع ہونے کی جگہ پر ہوتی ہیں۔
لفظ ” رجل” یعنی پاؤں اور اس کی جمع اَرجُل ہے۔مطلب پاؤں سے لے کر قدم تک کے حصے کو رِجل کہتے ہیں۔
میں تمام پڑھنے والوں سے معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ آسان کر کے لکھنا میرے لئے محال ہے جبکہ آگے مزید مشکل الفاظ کا آپ سب کو سامنا کرنا پڑے گا۔
تو اب انجینئر صاحب نے جو یہ کہا کہ قرائت مشہور کی بنا پر عربیت شناس کے ہاں اگر بِرُءُ وْ سِکُمْ کی ` ب` اِس طرح کے مواقع میں احاطے پر دلیل ہوتی ہے۔ اِسی طرح پاؤں کا حکم ، اگرچہ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ `وَامْسَحُوْا` کے تحت ہے ، لیکن `اَرْجُلَکُمْ` منصوب ہے۔
قارئین کے لئے آسان کردوں کہ انجینئر صاحب کی لوجک سے کلمہ (أرجلَکم) منصوب اور (ایدیکم) پر عطف ہے جس کے نتیجے میں معطوف اور معطوف علیہ کا حکم ایک ہوگا یعنی ہاتھوں اور پیروں کو دھونا چاہیئے۔
اگر حضرتِ انجینئر اسی کلام کو حجت مان کر وضو میں پاؤں دھونے پر بضد ہیں تو اب ان کی خدمت میں عربی قواعد کی روشنی میں ہی ان کا رَد پیش کر رہا ہوں جبکہ بعد میں اپنے پیش کئے گئے رَد پر خود اہل سنت علماء کے اقوال اورصحیح السند اہل سنت احادیث سے وضو میں پیروں کا مسح ثابت کر کے مکتبِ اہل بیت ؑ کا دفاع کروں گا۔
تو محترم محمد علی مرزا صاحب اگر اَرجُلَکُم کا بِرُؤوسِکُم کے محل پر عطف ہو تو اس صورت میں یہ اِمسَحُوا کا مفعول ہو گا ۔اس صورت میں پاؤں کا مسح کرنا ضروری ہو گا ۔رُؤوسِکم اگرچہ مجرور(کسرے کے ساتھ) ہے لیکن مجموعی طور پر حرف باءاور رُؤوسِکُم مل کر اِمسَحُوا کا مفعول ہے اور مفعول کی جگہ پر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے لہذا کلمهاَرجُلَکُم مفعول کے مقام پر عطف ہونے کی وجہ سے سر کی مانند پاؤں کا بھی مسح کرنا واجب ہے ۔ اَرجُلَکُم کا عطف وُجوهَکُم پر ہو اور یہ اغسِلوا کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہو تو اس صورت میں پاؤں بھی منہ کی طرح دھونا واجب ہو گا ۔
قواعد عربی کے لحاظ سے دوسرا احتمال قرآنی فصاحت کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ فاغسلوا کا جملہ مکمل ہو چکا ہے اور امسحوا کے ساتھ ایک نیا کلام شروع ہوا ہے ۔
اب ارجلکم کا عطف نزدیک والے کو چھوڑ کر دور والی جگہ پر عطف کرنا غیر مانوس اور غیر فصیح ہے نیز سر کے کچھ حصے کا مسح کرنے کی وجہ سے رُؤوسِکم کے ساتھ "بَ” مذکور ہوئی ہے ۔ تو اس لئے سر اور پاؤں کا مسح ہی کرنا چاہئے۔
اب یہاں پر میں اہل سنت عالم کا کلام اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر نذر کر رہا ہوں اور وہ بھی کوئی معمولی عالم نہیں بلکہ وہ عالم جن کے بارے میں خود علماء اہل سنت کہتے ہیں کہ اگر ان کی اصولِ فقہ پر کتابیں نہ ہوتیں توہمارے اہل سنت مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا یعنی امام ابن حزم اندلسی کی اصول فقہ اہل سنت پر لکھی ہوئی کتابیں ۔۔
تو آئیے انجینئر صاحب اب میں آپ کو آپ کے ایسے بزرگ ترین عالم امام ابن حزم اندلسی سے اسی آیت کی تشریح و تفسیر پیش کر رہا ہوں اور وہ بھی عربی و اردو متن کے ساتھ ۔
امام ابن حزم وضو والی آیت سے غلط مطلب سمجھنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں
مَسْأَلَةٌ و أما قَوْلُنَا فی الرِّجْلَيْنِ فإن الْقُرْآنَ نَزَلَ بِالْمَسْحِ:
(وَ امْسَحُوا برؤوسكم ((برءوسكم)) وَأَرْجُلَكُمْ) وَ سَوَاءٌ قرىء (قرئ) بِخَفْضِ اللاَّمِ أو بِفَتْحِهَا هِيَ على كل حَالٍ عَطْفٌ على الرؤوس (الرءوس) إمَّا على اللَّفْظِ و إما على الْمَوْضِعِ لاَ يَجُوزُ غَيْرُ ذلك لأنه لاَ يَجُوزُ أَنْ يُحَالَ بين الْمَعْطُوفِ وَ الْمَعْطُوفِ عليه بِقَضِيَّةٍ مُبْتَدَأَةٍ وَ هَكَذَا جاء عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِالْمَسْحِ يَعْنِی فی الرِّجْلَيْنِ فی الْوُضُوءِ۔
و قد قال بِالْمَسْحِ على الرِّجْلَيْنِ جَمَاعَةٌ من السَّلَفِ منهم عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ و ابن عَبَّاسٍ وَ الْحَسَنُ وَ عِكْرِمَةُ وَ الشَّعْبِيُّ وَ جَمَاعَةٌ و غيرهم (غيرهم) و هو قَوْلُ الطَّبَرِيِّ .
ہمارا کلام پیروں کے بارے میں یہ ہے کہ قرآن میں پیروں کا مسح کرنا نازل ہوا ہے، یعنی قرآن کے مطابق وضو میں پیروں کو مسح کرنا چاہیے۔
لفظ ارجلکم کی لام چاہے اس کے نیچے زیر ہو (ارجلِکم) اور چاہے اس پر زبر ہو (ارجلَکم)، ہر دو صورتوں میں اس کا عطف لفظ رؤوس پر ہوا ہے، اور یہ عطف یا خود ظاہری لفظ پر ہوا ہے یا لفظ کے محل و مقام پر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا فرض درست نہیں ہو گا، کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان ایک نئی و اضافی چیز کا فاصلہ ہونا جائز نہیں ہے۔ اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ قرآن میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔
حوالہ : الظاهری، علی بن أحمد بن سعيد بن حزم أبو محمد (متوفی456هـ)، المحلى، جلد 2، صفحہ 56 – تحقيق: لجنة إحياء التراث العربی
تو انجینئر صاحب ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ جس زیر زبر میں آپ عوام کو الجھا کر وضو جیسی عظیم عبادت کو خراب کرا رہے ہیں اس پر آپ اہل سنت کے عظیم فقہہ کا کیا بیان ہے ۔
اب یہاں کچھ صحیح السند احادیث بھی بیان کر کے اپنا اوپر کیا گیا وعدہ پورا کروں اور عوام اہل سنت جو عربیات و مشکل علوم قرآن کو نہیں سمجھ سکتی انہیں احادیث سے وضو میں پیروں کا مسح واجب ہونے پر دلائل دوں تاکہ حق واضح ہو جائے اور وہ مان جائیں کہ اصل دین فقط اور فقط اہل تشیع کا ہے جو انہوں نے اہل بیتؑ سے حاصل کیا ۔ نیز ساتھ میں میں ہرحدیث کے ساتھ اس کی سند پر اہل سنت علماء رجال کے اقوال بھی پیش کرو گا۔
وضو کے متعلق صحیح السند احادیث اہل سنت ۔۔
1- روايت امير المؤمنین علی (ع) : (سند صحيح)
احمد بن حنبل نے اپنی كتاب مسند میں علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے:
حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا وَكِيعٌ ثنا الأَعْمَشُ عن أبی إِسْحَاقَ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِىٍّ رضی الله عنه قال كنت أَرَى ان بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ من ظَاهِرِهِمَا حتى رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا.
عبد خیر نے علی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں خیال کرتا تھا کہ پیروں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا یہ پیروں کے اوپر مسح کرنے سے زیادہ مناسب ہے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا وضو میں ہر دو پیروں پر مسح کیا کرتے تھے۔
الامام احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 95، تحقيق: شعيب الارنوط- عادل مرشد، مؤسسة الرسالة.
کتاب مسند احمد کے محققین کا روایت کو صحیح قرار دینا:
کتاب مسند احمد کے محقق شعيب الارنؤط اور عادل مرشد نے کتاب کے حاشیے میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور انکی عبارت اسطرح ہے:
حديث صحيح بمجموع طرقه.
یہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ صحیح ہے۔
كتاب مصنف ابن ابی شيبہ میں یہ روايت اس طرح نقل ہوئی ہے کہ:
حدثنا وَكِيعٌ عَنِ الأَعْمَش عن أبی إِسْحَاقَ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِيٍّ قال لو كان الدِّينُ بِرَأْيٍ كان بَاطِنُ الْقَدَمَيْنِ أَحَقَّ بِالْمَسْحِ على ظَاهِرِهِمَا وَ لَكِنْ رَأَيْت رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه و سلم مَسَحَ ظَاهِرَهُمَا.
علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: اگر دین رائے اور مرضی کے ساتھ صحیح ہوتا تو پیروں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا، یہ پیروں کے اوپر والے حصے پر مسح کرنے سے زیادہ مناسب تھا، لیکن میں نے خود رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ اپنے پیروں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔
ابن أبی شيبة، عبد الله بن محمد، مصنف ابن أبی شيبة، ج 1، ص 25، تحقيق : حمد بن عبد الله الجمعه، محمد ابراهيم الحيدان، مكتبة الرشد.
2- روايت ابن عباس: (سند صحيح)
كتاب الفوائد کے مصنف نے ابن عباس سے رسول خدا (ص) کے وضو کو ایسے نقل کیا ہے کہ:
حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: ثنا وَرْقَاءُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِوُضُوءِ النَّبِيِّ قَالَ: فَمَضْمَضَ مَرَّةً مَرَّةً، وَ اسْتَنْشَقَ مَرَّةً مَرَّةً، وَ غَسَلَ وَجْهَهُ مَرَّةً، وَ يَدَيْهِ مَرَّةً، وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ.
عطاء بن يسار نے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ: کیا میں تمہارے لیے رسول خدا کے وضو کرنے کے طریقے کو بیان نہ کروں ؟ ابن عباس نے کہا: رسول خدا دو مرتبہ پانی سے کلی کرتے تھے، دو مرتبہ پانی سے ناک کو دھوتے تھے، ایک مرتبہ چہرے اور ایک مرتبہ ہاتھوں کو دھوتے تھے، پھر سر اور پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔
الشافعی، محمد بن عبد الله بن إبراهيم (متوفی354هـ)، كتاب الفوائد (الغيلانيات)، ج 4 ، ص 364، تحقيق: حلمی كامل أسعد عبد الهادی، دار النشر: دار ابن الجوزی – السعودية، الرياض، الطبعة: الأولى 1417هـ – 1997م
محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
کتاب کے محقق نے حاشیے میں اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
3- روايت رفاعہ بن رافع: (سند صحيح):
ابن ماجہ کی نقل کے مطابق، رفاعہ ابن رافع نے بھی رسول خدا (ص) کے وضو کرنے کے طریقے کو نقل کیا ہے:
حدثنا محمد بن يحيى ثنا حَجَّاجٌ ثنا هَمَّامٌ ثنا إسحاق بن عبد اللَّهِ بن أبی طَلْحَةَ حدثنی عَلِيُّ بن يحيى بن خَلَّادٍ عن أبيه عن عَمِّهِ رِفَاعَةَ بن رَافِعٍ أَنَّهُ كان جَالِسًا عِنْدَ النبی صلى الله عليه و سلم فقال إِنَّهَا لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ حتى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كما أَمَرَهُ الله تَعَالَى يَغْسِلُ وَجْهَهُ وَ يَدَيْهِ إلى الْمِرْفَقَيْنِ وَ يَمْسَحُ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ إلى الْكَعْبَيْنِ.
يحيی ابن خلاد نے اپنے چچا رفاعہ سے نقل کیا ہے کہ وہ رسول خدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ (ص) نے فرمایا: کسی بندے کی بھی نماز اسوقت تک مکمل اور صحیح نہیں ہے کہ جب تک خداوند کے حکم کے مطابق اعمال وضو کو انجام نہ دے، اپنے چہرے کو دھوئے اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں تک دھوئے اور پھر اپنے سر اور پیروں کا اٹھی ہوئی جگہ تک مسح کرے۔
القزوينی، محمد بن يزيد أبو عبدالله (الوفاة: 275ق) سنن ابن ماجه، ج 1، ص 291، تحقيق: شعيب الارنؤط، عادل مرشد، محمد كامل، مؤسسة الرساله.
روايت کو صحیح قرار دینا:
اس کتاب کے محقق شعيب الارنؤط نے حاشیے میں، اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:
اسناده صحيح.
البانی نے بھی کتاب سنن ابن ماجہ پر لگائے ہوئے اپنے حاشیے میں، اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
ابو داود نے بھی اپنی کتاب سنن میں اس روایت کو نقل کیا ہے، اور اسی کتاب کے محقق نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے.
اور البانی نے بھی کتاب سنن ابن داود پر لگائے ہوئے اپنے حاشیے میں، اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
دارمی نے بھی اپنی کتاب میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور کتاب کے محقق نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
4- روايت عثمان : (با سند معتبر):
عثمان نے بھی رسول خدا (ص) کے وضو کرنے کے طریقے کو نقل کیا ہے اور اس نے بھی وضاحت کی ہے کہ وہ وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے۔ یہ روایت چند اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
سند اول:
یہ روایت مسند احمد ابن حنبل میں معتبر سند کے ساتھ، اسطرح آئی ہے کہ:
حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا بن الأشجعی ثنا أبی عن سُفْيَانَ عن سَالِمٍ أبی النَّضْرِ عن بُسْرِ بن سَعِيدٍ قال أتى عُثْمَانُ الْمَقَاعِدَ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثاً وَ يَدَيْهِ ثَلاَثاً ثَلاَثاً ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ ثَلاَثاً ثَلاَثاً ثُمَّ قال رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم هَكَذَا يَتَوَضَّأُ يا هَؤُلاَءِ أَكَذَاكَ قالوا نعم لِنَفَرٍ من أَصْحَابِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه و سلم عِنْدَهُ۔
بسر بن سعيد نے کہا ہے کہ: عثمان وضو کرنے کی جگہ پر بیٹھا اور کہا کہ میرے لیے پانی لے کر آؤ تا کہ میں وضو کر سکوں۔ پھر اس نے کلی کی اور پھر ناک میں پانی ڈالا، اسکے بعد اس نے تین مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کو دھویا، پھر اس نے اپنے سر اور پیروں کا تین مرتبہ مسح کیا۔ اس کے بعد کہا: میں نے رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ اے لوگو، کیا رسول خدا کا وضو اسی طرح تھا ؟ سب نے کہا: ہاں، عثمان نے اس بات کو رسول خدا کے ان صحابہ سے کہا تھا کہ جو اس وقت اس کے پاس موجود تھے۔
الامام احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 523، تحقيق: شعيب الارنوط- عادل مرشد، مؤسسة الرسالة.
اس کتاب کے محقق نے حاشیے میں اس روایت کی سند کو حسن کہا ہے:
اسناده حسن.
سند دوم:
حمران بن ابان سے سند معتبر کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ عثمان اپنے پیروں کا مسح کیا کرتا تھا اور خود بھی واضح طور پر کہتا تھا کہ رسول خدا (ص) بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے:
حدثنا محمد بن بِشْرٍ قال حدثنا سَعِيدُ بن أبی عَرُوبَةَ عن قَتَادَةَ عن مُسْلِمِ بن يَسَارٍ عن حُمْرَانَ قال دَعَا عُثْمَانَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ ضَحِكَ فقال ألا تَسْأَلُونِی مِمَّا أَضْحَكُ قالوا يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ما اضحكك قال رَأَيْت رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه و سلم تَوَضَّأَ كما تَوَضَّأْت فَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ وَ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا وَ يَدَيْهِ ثَلاَثًا وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ ظَهْرِ قَدَمَيْهِ.
……. عثمان نے کہا کہ میں نے رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ بھی وضو کرتے وقت اپنے سر اور پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔
مصنف ابن أبی شيبة، ج 1، ص 16
یہ روایت مسند احمد ابن حنبل اور مسند بزار میں بھی نقل ہوئی ہے:
الشيبانی، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفی241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 58، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
البزار، ابوبكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفی292 هـ)، البحر الزخار (مسند البزار) ج 2، ص 74، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم و الحكم – بيروت، المدينة الطبعة: الأولى، 1409 هـ،
ہيثمی اہل سنت کا علم رجال کا عالم ہے، اس نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
رواه البزار و رجاله رجال الصحيح و هو فی الصحيح باختصار
اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے اور اسکی سند کے سارے راوی، صحیح ہیں۔
مجمع الزوائد، ج 1، ص 229
سیوطی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
حم، و البزار حل ، ع ، و صحَّح۔
اس روایت کو احمد ابن حنبل، بزار، ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء اور ابو یعلی نے نقل کیا ہے اور روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
السيوطی، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبی بكر (متوفی911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير و زوائده و الجامع الكبير)، ج 15، ص 197، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،
سند سوم:
ابن خزیمہ نے بھی شقيق بن سلمہ سے عثمان کی روايت کو نقل کیا ہے کہ اس نے اپنے پیروں کا مسح کیا اور کہا کہ رسول خدا (ص) بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے:
أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا يعقوب بن إبراهيم الدورقی حدثنا خلف بن الوليد حدثنا إسرائيل عن عامر بن شقيق عن شقيق بن سلمة عن عثمان بن عفان أنه توضأ فغسل وجهه ثلاثا و استنشق ثلاثا و مضمض ثلاثا و مسح برأسه و أذنيه ظاهرهما و باطنهما و رجليه ثلاثا و خلل لحيته و أصابع الرجلين و قال هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يتوضأ.
شقيق بن سلمہ نے نقل كیا ہے کہ عثمان بن عفان نے وضو کیا، اس نے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ اپنے چہرے کو پانی سے دھویا، پھر سر، ہر دو کان کے اندر و باہر سے اور پیروں کا تین مرتبہ مسح کیا، پھر کہا کہ میں نے رسول خدا کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
ابن خزيمة السلمی النيسابوری، أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة (متوفی311هـ) ، صحيح ابن خزيمة، ج 1، ص 78، تحقيق: د. محمد مصطفى الأعظمی ، ناشر : المكتب الإسلامی – بيروت – 1390هـ – 1970م
یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور ابن خزیمہ کی کتاب صحیح میں بھی نقل ہوئی ہے۔
صحيح ابن خزيمة، ج 1، ص 3۔
یہاں تک بعض صحابہ کی گواہی سے ثابت ہو گیا کہ رسول خدا وضو کرتے وقت اپنے پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔ اگرچے اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں، لیکن میں فقط اتنی ہی روایات کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں تاکہ تحریر جس قدر ممکن ہو مختصر رہ سکے۔
اب یہاں پر اس حدیث کی طرف بھی اشارہ کردوں جو امام اندلسی نے اپنے آخر کلام میں بیان کی جسے میں اوپر اپنی تحریر میں لا چکا ہوں
ابن ابی شيبہ اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے پاؤں کے دھونے کا انکار کیا ہے اور مسح کرنے کو قرآن کے مطابق کہا ہے:
حدثنا بن عُلَيَّةَ عن رَوْحِ بن الْقَاسِمِ عن عبد اللهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ عن الرُّبَيِّعِ ابْنَةِ مُعَوِّذِ بن عَفْرَاءَ قالت أَتَانِی بن عَبَّاسٍ فَسَأَلَنِی عن هذا الحديث تَعْنِی حَدِيثَهَا الذی ذَكَرَتْ أنها رَأَتْ النبی صلى الله عليه و سلم تَوَضَّأَ وَ أَنَّهُ غَسَلَ رِجْلَيْهِ قالت فقال بن عَبَّاسٍ أَبَى الناس إِلاَّ الْغَسْلَ وَ لاَ أَجِدُ فی كِتَابِ اللهِ إِلاَّ الْمَسْحَ.
معوذ بن عفرا کی بیٹی ربیع نے کہا ہے کہ: ابن عباس میرے پاس آیا اور اس روایت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا۔ ربیع کا مقصد وہ روایت تھی کہ رسول خدا کو اس نے مشاہدہ کیا کہ انھوں نے پاؤں کو وضو میں دھویا ہے۔ ربیع نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ لوگ فقط پاؤں کو دھوتے ہیں، حالانکہ میں نے قرآن میں فقط مسح کرنے کو دیکھا ہے۔
إبن أبی شيبة الكوفی، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفى235 هـ)، الكتاب المصنف فی الأحاديث و الآثار، ج 1، ص 27، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
القزوينی، ابو عبد الله محمد بن يزيد (متوفى275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 156، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر: دار الفكر – بيروت.
اس روایت کی سند بھی معتبر ہے۔ احمد بن ابوبکر کنانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
هذا إسناد حسن رواه ابن أبی شيبة فی مصنفه.
اس روایت کی سند حسن ہے کہ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف میں نقل کیا ہے۔
الكنانی، أحمد بن أبی بكر بن إسماعيل (متوفي840هـ)، مصباح الزجاجة فی زوائد ابن ماجه، ج 1، ص 66، تحقيق: محمد المنتقى الكشناوی، دار النشر: دار العربية – بيروت، الطبعة: الثانية 1403
ابن عباس سے دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں کہ وہ وضو میں مسح کرنے کے قائل تھے نہ کہ پاؤں کو دھونے کے۔
عبد الرزاق صنعانی نے ایک دوسری روايت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ أَوْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” افْتَرَضَ اللَّهُ غَسْلَتَيْنِ وَ مَسْحَتَيْنِ، أَلا تَرَى أَنَّهُ ذَكَرَ التَّيَمُّمَ؟ فَجَعَلَ مَكَانَ الْغَسْلَتَيْنِ مَسْحَتَيْنِ، وَ تَرَكَ الْمَسْحَتَيْنِ ". قَالَ مَعْمَرٌ: وَ قَالَ رَجُلٌ لِمَطَرٍ الْوَرَّاقِ، مَنْ كَانَ يَقُولُ الْمَسْحُ عَلَى الرِّجْلَيْنِ؟ قَالَ: فُقَهَاءُ كَثِيرٌ.
جابر يا عکرمہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:
خداوند نے وضو میں دو دھونے اور دو مسح کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خداوند نے تیمم کو ذکر کیا ہے ؟ یہ تیمم دو دھونے اور دو مسح کرنے کی جگہ قرار دیا گیا ہے اور دو مسح کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
معمر نے کہا ہے کہ: ایک شخص نے مطر وراق سے کہا کہ: کون پاؤں پر مسح کرنے کا قائل ہے ؟ اس نے جواب دیا: بہت سے فقہاء اس مطلب کے قائل ہیں۔
مصنف عبد الرزاق، ج 1، ص 19
ایک دوسری روایت میں ابن عباس نے کہا ہے کہ:
عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرنی عمرو بن دينار أنه سمع عكرمة يقول قال بن عباس الوضوء مسحتان و غسلتان.
عکرمہ نے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ: وضو میں دو چیزوں کا مسح کیا جاتا ہے اور دو کو دھویا جاتا ہے۔
مصنف عبد الرزاق، ج 1، ص 19
تو تحریر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کہ انجینئر محمد علی مرزا سمیت ہر مسلمان کا دینی اور شرعی فریضہ ہے کہ وہ شیعوں سے بغض ختم کرے قرآن اور رسول خدا (ص) کی سنت و سیرت پر عمل پیرا ہوکر اصل تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔
والسلام علیکم
احقر #ابوعبداللہ