تو جیسا کہ وعدہ تھا کہ ان جاہل اور نکاح مسیار اور جہاد النکاح سے پیدا ہوئے ناجائز ناصبیوں کو متعہ پر جواب دینا ہے تو آج فرصت نصیب ہوئی ہے.
یہاں میں اپنا وہ مناظرہ نقل کرتا ہوں جو کئی سال پہلے شاید میں انٹر کے فرسٹ ایئر میں ہونگا.. ایک اہل سنت بریلوی عالم سے ہوا تھا جس کے بعد اس بیچارے عالم کو اس کی مسجد سے نکال باہر کر دیا گیا تھا 😂
تو وقت ضائع کیے بغیر وہی مکالمہ (مزید حوالوں) کے ساتھ پیش کرتا ہوں.
مولانا: آپ لوگ متعہ کیوں کرتے ہیں؟
ابوعبداللہ : آپ لوگ متعہ کیوں نہیں کرتے؟
مولانا: یہ حرام نکاح ہے.
ابوعبداللہ : حرام نکاح؟؟ اگر یہ حرام نکاح ہے تو پھر قرآن مجید میں اس نکاح کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے اس کا مہر ادا کرنے کا حکم کیوں دیا؟؟
مولانا : ہیں ہیں.. قرآن میں کہاں آ گیا؟؟
ابوعبداللہ : محترم آپ اس مسجد میں کہاں سے آ گئے بنا قرآن پڑھے اور وہ بھی مولانا بن کر اور اتنا بڑا بڑا کیوں لکھ رکھا ہے اپنے حجرے کے باہر کہ آپ اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹر ہیں اور نجانے کس دارالعلوم سے فاضل بھی ؟
کیا وہاں قرآن مجید کے علاوہ کچھ اور پڑھا کر عالم فاضل کی جعلی ڈگری دی جاتی ہے؟؟ ( مولانا کا چہرہ عجیب ہونے لگا اور رنگ بھی)
مولانا : آپ مجھے چھوڑیں اور سیدھا سیدھا ثابت کریں (جھنجھلا کر بولے)
ابوعبداللہ : محترم لگتا ہے آپ قرآن کو چھوڑ چکے ہیں تبھی مجھ سے ثبوت مانگ رہے ہیں (میں ہنستے ہوئے بولا).. اور بھائی ہم شیعہ ہی کیوں ثابت کرتے رہیں؟؟ آپ نے بھی تو دعویٰ کیا ہے کہ یہ حرام نکاح ہے تو آپ مجھے ثابت کر دیں کہ یہ حرام کیسے ہے.. پھر میں قرآن اور شریعتِ محمدی کا دفاع کرتے ہوئے یہ ثابت کروں گا کہ آپ بالکل غلط ہیں .. اور ویسے بھی میں آپ سے عمر (دل میں بولا بےشمار) بہت چھوٹا ہوں شروعات تو آپ کو کرنی چاہیے..
(لو جی جاہل کی دم پر تعریف کا پاؤں رکھ دیا میں نے 😂)
مولانا : ٹھیک ہے میں ثابت کر دیتا ہوں کہ یہ حرام ہے..
ابوعبداللہ : یہ ہوئی نا بڑوں والی بات.. جی بسم اللہ
مولانا : صحیح بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ
ال عمر ثلاث کن علی عهد رسول الله(ص) وانا محرمهن و معاقب علیهن : متعة الحج، متعة النساء وحیّ علی خیر العمل فی الاذان .
عمرنے کہا رسول اللہ(ص) کے زمانے میں تین چیزیں رائج تھیں لیکن میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور انجام دینے والوں کو سزا دوں گا، وہ متعہ حج ، متعہ نساء اور اذان میں حی علی خیر العمل کا جملہ ہے.
( صحیح بخاری ، باب التمتع والقران والافراد، ح ۱۵۶۳، صحیح مسلم، باب جواز التمتع، ح۱۲۲۳)
ابوعبداللہ : مجھ سے تو ہنسی کنٹرول نہ ہوئی اور بولا.. مولانا صاحب آپ نے شیعوں کے بغض میں متعہ کو حرام کرتے کرتے دوسرے خلیفہ کو بھی مشکوک کر دیا 😂؟
(مولانا اور ان کے ساتھ بیٹھے کچھ چیلے ایک دم سٹ پٹا گئے)
مولانا : بیٹا آپ ابھی بچے ہیں ایسی باتیں نا کریں جبکہ میں حدیث شریف دکھا چکا ہوں.
ابوعبداللہ : اچھا یہ جو حدیث آپ نے بیان کی ہے اس میں یہی ہے نا کہ رسول اللہ کے زمانے میں یہ تین چیزیں جن میں سے ایک متعہ ہے وہ حلال تھیں اور دوسرے خلیفہ نے اقرار بھی کیا اور ساتھ میں حرام بھی کر دیا.. ایسا ہی ہے؟
مولانا : جھٹ سے بولے.. ہاں بالکل ان چیزوں کو فاروقِ اعظم نے اجتھاد کرتے ہوئے حرام کیا تھا؟
ابوعبداللہ : ٹھیک یعنی آپ بھی حضرت عمر کی طرح یہ مانتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کے زمانے میں حلال اور جائز تھا.
مولانا :بالکل بالکل..
ابوعبداللہ : تو کیا دوسرے خلیفہ نے یہ حدیث نہیں سن رکھی تھی کہ
حَرَّمَهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
اللہ اور اس کے رسول کا حرام قرار دیا ہوا، قیامت تک حرام ہے… بالکل ویسے ہی جیسے ان کا حلال اور جائز کیا ہوا قیامت تک جائز و حلال ہے؟ آپ ہی کی صحیح السند حدیث ہے نا یہ؟؟ (میں مسکراتے ہوئے بولا) تو پھر جب خدا اور اس کے رسول نے حرام نہیں کیا جو کہ عمر خود اقرار کر رہے ہیں تو پھر انہوں نے اجتہاد کرتے ہوئے حلالِ محمد کو اپنے زمانے میں حرام کیسے کر دیا؟؟ جواب دیں؟؟ یا تو یہ مانیں کہ میری پیش کی گئی حدیث غلط ہے اور ساتھ میں یہ بھی ثابت کریں کہ کیسے غلط ہے جبکہ یہ حدیث جامع الحدیث الصحیحۃ میں بھی موجود ہے اور تمام علماء رجال اس کی سند کو صحیح مانتے ہیں.
😂 (اب تو چہرے پر ہوائیاں اڑانے لگیں.. قسم سے)
مولانا : ہکا بکا ہو کر بولے… یہ بھی تو حدیث ہے جو میں نے پیش کی ہے وہ بھی تو صحیح ہے تو اسے مان لیں آپ؟ (ساتھ ساتھ وہ کتابوں کے صفحات پلٹتے ہوئے بولے)
ابوعبداللہ : یعنی جواب ہے ہی نہیں آپ کے پاس جو میں نے آپ سے سوال کیا ہے (ساتھ بیٹھے ان کے چیلوں کا منہ دیکھنے والا تھا).. میں پھر بولا.. اچھا چلیں اس کو مان لیتے ہیں.. ٹھیک 😂.. تو یہ بتائیں کہ اگر کوئی حدیث قرآن کے ٹکرائے تو کیا آپ حدیث کو مانیں گے یا قرآن مجید کی آیت کو؟
مولانا : (اپنی کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے) یقیناً قرآن کا مقابلہ کسی سے ہو نہیں سکتا..
ابوعبداللہ : سبحان اللہ مولانا سبحان اللہ.. آپ کی ان کتابوں کے ساتھ جو قرآن رکھا ہے کیا اس میں سورہ نساء کی آیت 24 کھول کر پڑھ سکتے ہیں ترجمہ کے ساتھ؟
مولانا : (مولانا کو سارے چیلے گھورنے لگے.. اتنے میں سے ایک چیلے نے فوراً قرآن اٹھا کر سورہ کھول لی) مولانا نے جذباتی انداز میں فوراً قرآن پاک اس کے ہاتھ سے لیا اور بولے کون سی آیت ہے نشان بتائیں؟
ابوعبداللہ : بتایا تو تھا.. سورہ نساء کی چوبیسویں آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُـمْ بِهٖ مِنْـهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً..
مولانا : بات کاٹتے ہوئے.. میں پڑھتا ہوں آپ تحمل کریں..
ابوعبداللہ : جی جی بسم اللہ.. معذرت چاہتا ہوں.. ترجمہ بھی ضرور پڑھیے گا
مولانا : یقیناً.. (پھر مولانا نے شروع سے آیت پڑھنا شروع کر دی. اور ترجمہ پڑھتے ہوئے کہتے : اللہ فرما رہا ہے کہ
ابوعبداللہ : اب میں بات کاٹتے ہوئے.. قبلہ بس اس کا ترجمہ کر دیں کہ جہاں سے فما استمتعتم سے شروع ہے.
مولانا : (مولانا اور اس کے چیلوں نے عجیب نظروں سے مجھے گھورا) مولانا اپنی عینک نیچے کرتے ہوئے پڑھنے لگے..
اللہ فرما رہا ہے : اور ان عورتوں میں سے جن سے تم متعہ کرو۔ تو ان کی مقررہ اجرتیں ادا کر دو۔ اور اگر زرِ مہر مقرر کرنے کے بعد تم آپس میں (کم و بیش پر) راضی ہو جاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بے شک اللہ بہت جاننے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔
ابوعبداللہ : (آیت کا ترجمہ پڑھنا تھا کہ چیلوں پر بجلی گری) میں نے فوراً ترجمہ کو وہیں سے پکڑا اور بولا.. جن عورتوں سے تم متعہ کرو.. قبلہ یہی ترجمہ ہے نا.. یہ تو محکم آیت ہے جناب. صاف صاف قرآن کا حکم ہے.
مولانا : ( چیلوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے) ہاں یہی ترجمہ ہے.. لیکن یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی.. تبھی تو فاروق اعظم نے اجتھاد کیا تھا.
ابوعبداللہ : (میں مسکراتے ہوئے) اچھا منسوخ ہو گئی تھی.. تو جناب اگر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی بقول آپ کے تو پھر اس آیت کے نسخ پر دوسری ناسخ آیت آئی ہو گی، وہ دکھا دیں کہاں پر ہے اور کون سی ہے؟
مولانا : (اپنی کتابوں کے صفحات ٹٹولتے ہوئے) اس آیت کو رسول نے منسوخ کیا تھا اپنے حکم سے..
ابوعبداللہ : ارے قبلہ.. پہلی بات تو یہ کہ آیت کوئی دوسری آیت ہی منسوخ کر سکتی ہے، کوئی حدیث آیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی. چلیں فی الحال مان بھی لیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آپ فرما چکے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ اقرار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ رسول کے زمانے میں جائز تھا جسے میں حرام کرتا ہوں.. تو جب رسول نے اپنے زمانے میں ہی اسے منسوخ کر دیا تھا تو پھر عمر یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ رسول کہ زمانے میں جائز تھا؟؟ اور منسوخ ہی ہو چکا تھا تو پھر عمر کو کیا ضرورت تھی اسے حرام کرنے کی؟
اب تو مولانا کی نیچے سے زمین سرکنے لگی.. 😂😂 پھنس گئے بری طرح.. اتنے میں ایک چیلہ جذباتی ہو کر بولا، امام صاحب.. جواب دیں نا اس کا..
مولانا کچھ نا بول سکے اور کتابوں کے صفحے پلٹتے رہے 😂😂
ابوعبداللہ : (اتنے میں نے اس چیلے کو مخاطب کر کے کہا) یہ جواب ہی نہیں دے سکتے.. کیونکہ اگر جواب ہاں میں ہوگا تو قرآن اور ان کی پیش کی گئی حدیث کو جھٹلانا پڑے گا اور اگر نہ میں دیا تو، حضرت عمر دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں شریعت کا اور قرآن کا حکم جھٹلا کر 😂 چلیں میں خود ہی آپ کی کتابوں سے کچھ احادیث پیش کر کے حجت تمام کر دیتا ہوں.. جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ زمانہ رسول سے لے کر پہلے خلیفہ اور حضرت عمر کی خلافت کے کچھ عرصے تک متعہ نا صرف جائز تھا بلکہ صحابہ کرام خود بھی متعہ کیا کرتے تھے… کیوں مولانا کو مزید زحمت دیں..
حوالہ نمبر 1:
وحدثنا الحسن الحلواني ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قال عطاء : قدم جابر بن عبد الله معتمرا، فجئناه في منزله، فساله القوم عن اشياء، ثم ذكروا المتعة، فقال: ” نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر ".
عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ عمرے کے لیے آئے اور ہم سب ان کی منزل میں ملنے کے لیے گئے اور لوگوں نے ان سے بہت باتیں پوچھیں پھر متعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں متعہ کیا ہے۔
(باب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ ثُمَّ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ: صحیح مسلم – حدیث نمبر: 3415)
حوالہ نمبر 2:
وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، قال: سمعت الحسن بن محمد ، يحدث، عن جابر بن عبد الله ، وسلمة بن الاكوع ، قالا: خرج علينا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ” إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اذن لكم ان تستمتعوا يعني: متعة النساء ".
سیدنا جابر اور سلمہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی نکلا اور اس نے پکارا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے۔
(صحیح مسلم، باب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، حدیث نمبر: 3414)
حوالہ نمبر 3 :
وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، قال: سمعت الحسن بن محمد ، يحدث، عن جابر بن عبد الله ، وسلمة بن الاكوع ، قالا: خرج علينا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ” إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اذن لكم ان تستمتعوا يعني: متعة النساء ".
سیدنا جابر اور سلمہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی نکلا اور اس نے پکارا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے۔
(صحیح مسلم ، اب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ، حدیث نمبر: 3413)
حوالہ نمبر 4:
حدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، قال: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: ” كنا نستمتع بالقبضة من التمر، والدقيق الايام على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر حتى نهى عنه عمر في شان عمرو بن حريث ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم متعہ کرتے تھے یعنی عورتوں سے کئی دن کے لئے ایک مٹھی کھجور اور آٹا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہاں تک کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے عمرو بن حریث کے قصہ میں منع کیا۔
(صحیح مسلم ، اب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ، حدیث نمبر: 3416)
حوالہ نمبر 5 :
حدثنا حدثنا حامد بن عمر البكراوي ، حدثنا عبد الواحد يعني ابن زياد ، عن عاصم ، عن ابي نضرة ، قال: كنت عند جابر بن عبد الله، فاتاه آت، فقال ابن عباس، وابن الزبير، اختلفا في المتعتين، فقال جابر : فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نهانا عنهما عمر، فلم نعد لهما.
ابونضرہ نے کہا کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک شخص آیا اور کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے دونوں متعوں (یعنی حج تمتع اور عورتوں کے متعہ) میں اختلاف کیا ہے۔ سو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دونوں متعے کیے ہیں پھر ان دونوں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منع کر دیا اس کے بعد ہم نے ان دونوں کو نہیں کیا۔
(ا السنن الكبرى للبيهقي – ج 7 – قسم الصدقات – النفقات – 13112 – 15754 )
حوالہ نمبر 6 :
حدثنا إسحاق بن جبرائيل البغدادي، اخبرنا يزيد، اخبرنا موسى بن مسلم بن رومان، عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” من اعطى في صداق امراة ملء كفيه سويقا او تمرا فقد استحل”. قال ابو داود: رواه عبد الرحمن بن مهدي، عن صالح بن رومان، عن ابي الزبير، عن جابر موقوفا. ورواه ابو عاصم، عن صالح بن رومان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نستمتع بالقبضة من الطعام على معنى المتعة. قال ابو داود: رواه ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، على معنى ابي عاصم.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی عورت کو مہر میں مٹھی بھر ستو یا کھجور دیا تو اس نے (اس عورت کو اپنے لیے) حلال کر لیا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالرحمٰن بن مہدی نے صالح بن رومان سے انہوں نے ابوزبیر سے انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کیا ہے اور اسے ابوعاصم نے صالح بن رومان سے، صالح نے ابو الزبیر سے، ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مٹھی اناج دے کر متعہ کرتے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ابو الزبیر سے انہوں نے جابر سے ابوعاصم کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے۔
(سنن ابي داود، كِتَاب النِّكَاحِ، 30. باب قِلَّةِ الْمَهْرِ، حدیث نمبر: 2110)
حوالہ نمبر 7 :
سورہ نساء کی آیت 24 کے ذیل میں حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ما کانت المتعۃ الا رحمۃ من اللہ رحم بھا امۃ محمد لو لا نہی عمر مازنی الاشقی ۔
امت محمد (ص) کے لیے متعہ اللہ کی طرف سے ایک رحمت تھا۔ اگر حضرت عمر اسے ممنوع قرار نہ دیتے تو شقی کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔
(نہایۃ المجتھد ۲:۵۷۔ تفسیر قرطبی ۵ :۱۳۰۔ تفسیر سمرقندی ۱ :۳۴۶)
حوالہ نمبر 8 :
أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِی مُسْنَدِهِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ فِی مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَ اللَّفْظُ لَهُ قَالَ أُنْزِلَتِ الْمُتْعَةُ فِی كِتَابِ الله وَ عَلِمْنَاهَا وَ فَعَلْنَاهَا مَعَ النَّبِيِّ ص وَ لَمْ يَنْزِلْ قُرْآنٌ بِتَحْرِیمِهَا وَ لَمْ يُنْهَ عَنْهَا حَتَّی مَاتَ رَسُولُ الله (ص)
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں عمران بن حصین سے متعۃ النساء اور اس کے الفاظ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے کہا: متعہ کا حکم قرآن میں آیا ہے اور ہم اسے جانتے بھی ہیں اس پررسول اللہ(ص) کی موجودگی میں عمل بھی کئے ہیں. اور قرآن میں کوئی آیۃ بھی نہیں اتری ہے جو اسے حرام قرار دیتی ہو اور اس سےمنع بھی نہیں کیا گیا ؛ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) اس دار فانی سے رخصت کرگئے.اسی روایت کے ذیل میں نقل کیاہے:عبد المحمود بن داود نے کہا دیکھئے کہ صحاح ستہ کی واضح احادیث جو نکاح متعہ کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے فقط یہ دیکھیں کہ ان کے خلیفہ عمر نے نبی کی شریعت میں تبدیلی لائی ہے پھر یہ دیکھیں کہ ان کے ماننے والے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسے ممنوع سمجھتے ہیں پس کیا یہ جائز ہے کہ انبیاء کی شریعت میں ان کے اصحاب اور نمائندے تبدیلی لائیں یااپنے لئے ایک جدید حکم منتخب کرے جو سنت رسول کے خلاف ہو؛ توکیا یہ لوگ اس آیہ شریفہ کا مصداق نہیں ہونگے؟!!
(الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف،ج۲۴۵۹،نہی عمر عن المتعة، ص ۴۵۷)
حوالہ نمبر 9 :
ایک مرد شامی نے عبداللہ بن عمر سے متعہ حج کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا حلال ہے. تو مرد شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اسے حرام قرار دیا ہے عبداللہ نےے کہا : میرے بابا نے مع کیا ہے اور رسول خدا (ص) نے اس پر عمل کیا ہے. اب تو خود بتا کہ میں کیا کروں ؟ میرے بابا کے روکنے کو عملی کروں یا سنت پیغمبر (ص) کو اپناؤں ؟! اور میں پیغمبر (ص) کی سنت کو اپناؤں گا دور ہوجا یہاں سے
(سنن ترمزی،ح ۴۲۸)
حوالہ نمبر 10 :
اور میرے بھائیوں جو اوپر حدیث نقل کی تھی میں نے محمد کا حرام قیامت تک حرام والی اس کا حوالہ یہ ہے.
حَرَّمَهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المصنف فى التاريخ الكبير: 54/8 و أحمد: 23854 و الطبراني فى الكبير: 256/20 و البزار فى مسند: 50/6 و البيهقي فى الشعب: 99/12 – الصحيحة: 65»
اب تو وہ زلزلہ آیا کہ چہرے پیلے ہو گئے مولانا اور ان کے چیلوں کے… ایسا لگتا تھا جسموں میں روح ہی نہیں.. 😂😂
پھر تھوڑی دیر بعد سکوت ٹوٹا.. تو مولانا نے فرمایا..
آپ سادات میں سے ہیں؟؟
میں نے کہا الحمد للہ.. سید ہوں..
پھر انکساری چہرے پر چڑھا کر اپنے چیلوں کو گھورتے ہوئے ایک جملہ کہا جسے میں آج تک نہیں بھولا اور نا ہی ان کا وہ انداز… کہنے لگے..
” بےشک.. سید کا بیٹا، سید ہی ہوتا ہے”!!
مناظرہ #ابوعبداللہ
facebook.com/iamabuabdullah.zaidi