رحلت رسول اکرم (ص) کے بعد مقام خلافت کو غصب کرنے سے منافقین کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا انہیں خلافت کے اصلی حقدار امیر المومنین علی علیہ السلام کو بھی بطور کلی میدان سے ہٹانا تھا ورنہ خطرہ ہمیشہ باقی رہتا۔ لہذا طے یہ پایا کہ حضرت علی علیہ السلام کو نماز کی حالت میں شہید کر دیں۔ اس لیے کہ جیسا رسول اکرم کے دور میں خود پیغمبر ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھے آپ کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے بھی یہ خطرہ انہیں محسوس ہو رہا تھا۔ اس لیے کہ آپ ان کے تمام مصوبوں کو نقش بر آب کر سکتے تھے جو وہ اسلام کے خلاف بناتے تھے۔ اس وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کا قتل ان کی پہلی ترجیحات میں شامل تھا۔ تاریخ میں نقل ہے کہ مسند خلافت کو غصب کرنے کے بعد خلیفہ اول نے خالد کو حکم دیا کہ نماز کی حالت میں حضرت علی کو قتل کر دے لیکن نماز کے درمیان وہ اس کام سے پشیمان ہو گئے اور خالد کو یہ کام انجام دینے سے روک دیا۔ (۱)

اس روایت کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں یہاں پر ہماری کوئی گفتگو نہیں ہے لیکن اس روایت سے اتنا ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی مسلمان جلدی سے حضرت علی علیہ السلام کے قتل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا چونکہ شجر اسلام کو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے خون پسینہ سے پروان چڑھا تھا۔ لہذا حضرت علی کے قتل کا منصوبہ وہ بنا سکتا ہے جو اسلام کا دشمن ہو، جو پیغمبر کا دشمن ہو اور قرآن کریم مسلمانوں کا بدترین دشمن قوم یہود کو پہچنواتا ہے (لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَ الَّذينَ أَشْرَکُوا ) (مائدہ ۸۲)۔ یہودی بعض کمزور ایمان مسلمانوں کو استعمال کر کے دین اسلام کو نقصان پہنچاتے اور اسلام کی جڑوں کو کمزور بنانے کی کوشش کرتے تھے لہذا منافقین وہی کمزور ایمان مسلمان تھے جو یہودیوں اور مشرکوں کے ہاتھوں کا مہرہ تھے۔

ایک دن امیر المومنین علی علیہ السلام نے ابن ملجم کو پہلی مرتبہ دیکھا تو اس کا نام اور شجرہ نسب بتانے کے بعد فرمایا کہ رسول خدا نے میرا قاتل ایک یہودی بتایا ہے (۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ابن ملجم یہودی تھا یا یہودی باپ کا بیٹا تھا اور بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ چکا تھا۔ حتیٰ بعض اہل سنت کی روایتوں میں بھی ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو رجعت کے بعد بھی اریحا کے مقام پر ایک یہودی ہی قتل کرے گا۔ (۳)

امیر المومنین کے قتل میں یہودیوں کا کردار

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور حیات میں پیش آنے والی اکثر مشکلات، جنگوں اور فتنہ و فساد کا سبب یہودی اور مشرکین تھے جنہیں اللہ نے بدترین دشمن قرار دیا ہے۔ اسی طرح رسول خدا(ص) کے حقیقی جانشین یعنی حضرت علی علیہ السلام کے قتل میں یہودی اور ان کے کارندوں یعنی بنی امیہ کا بنیادی کردار تھا۔ بعض تاریخی حقائق کی بنا پر ابن ملجم جو خود بھی یہودی الاصل تھا نے خود سے حضرت علی (ع) کے قتل کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ یہ دوسرے یہودیوں اور خاص طور پر بنی امیہ کہ جس کے سرکردہ معاویہ ور عمرو عاص تھے کی طرف سے مامور تھا، اس کی دلیل میں یہاں پر بعض تاریخی قرآئن و شواہد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف؛ ابن ملجم کا تاریخی پس منظر

ابن سعد کی تحریر کے مطابق، عبد الرحمن بن ملجم قبیلہ مراد میں سے تھا جو قبیلہ بنی جبلہ کے ساتھ ہم پیمان تھا (۴)۔ بعض کا کہنا ہے وہ دوران جاہلیت میں بھی تھا اور خلیفہ ثانی کے دور میں مسلمان ہوا تھا(۵)۔ اور فتح مصر میں شریک تھا اور اس کے بعد مصر میں ساکن ہو گیا تھا۔(۶)

جب عمرو بن عاص خلیفہ ثانی کی جانب سے مصر کا حاکم بنا(۷) تو عمر بن خطاب نے اپنے ایک خط کے ذریعے عمرو عاص کو حکم دیا کہ مسجد کے پاس کی وسیع و عریض زمینوں کو ابن ملجم کے نام کریں اور اسے مصر میں معلم قرآن کی مسند پر بٹھائیں۔ عمرعاص نے اس حکم کے بعد ابن ملجم کو اپنے خاص آدمیوں میں سے قرار دیتے ہوئے خلیفہ کے حکم پر عمل کیا(۸)۔ ابن ملجم مصر میں ایک مسجد کا متولی بن گیا(۹) اور مصر کے معروف لوگوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گیا(۱۰)۔ بعض کا کہنا ہے کہ ابن ملجم نے معاذ بن جبل سے قرآن سیکھا اور اس کے بعد مصر میں معلم قرآن کے عنوان سے معروف ہوا۔(۱۱)

ان روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابن ملجم گروہ منافقین کے سرغنوں سے بہت گہرا تعلق رکھتا تھا اور جیسا کہ کعب الاحبار ار زید بن ثابت جو یہودی تھے خلیفہ ثانی کے نزدیک مفسر و معلم قرآن کی حیثیت رکھتے تھے ابن ملجم بھی مصر میں مفسر و معلم قرآن کے عنوان سے معروف ہو گیا۔

ب؛ حضرت علی (ع) کے ساتھ منافقانہ بیعت

وہ شخص جو سن بیس ہجری (فتح مصر) سے عمرو عاص کے ساتھ ساتھ اس کے قریبی دوستوں میں سے رہا ہو، امیر المومنین (ع) کے ظاہری مسند خلافت پر آنے کے بعد کوفہ پہنچ جائے اور حضرت علی کی بیعت کرے؟!! ابن سعد اور دیگر مورخین کے نقل کے مطابق حضرت علی (ع) نے کئی بار اس کی بیعت کو قبول نہیں کیا اور اپنی شہادت کی طرف اشارہ کیا: : « دعا علي بن أبي طالب الناس إلى البيعة فجاءه ابن ملجم فرده ثم جاءه فرده ثم جاءه فبايعه ثم قال علي: ما يحبس أشقاها أما والذي نفسي بيده لتخضبن هذه – وأخذ بلحيته – من هذه – وأخذ برأسه.» (12)

بعض مورخین نے ابن ملجم کو حضرت علی (ع) کے چاہنے والوں میں شامل کرتے ہوئے اسے جنگ صفین کے حضرت علی کے لشکر میں سے قرار دیا ہے(۱۳) حالانکہ معتبر تاریخی کتابوں سے اس کا جنگ صفین میں لشکر امیر المومنین میں ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ اسے صرف خوارج میں سے قرار دیا گیا ہے۔ (۱۴) ابن ملجم کا کوفہ میں آنا اور حضرت علی (ع) کی بیعت کرنا ٹھیک اسی دور میں جب عمر عاص مصر سے شام گیا اور معاویہ بن ابی سفیان سے ہم پیمان ہوا، غور طلب مسئلہ ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان ہوا، ابن ملجم کا عمرو عاص کے خاص افراد میں سے ہونا اور اس کا حضرت علی (ع) کے مسند خلافت پر آتے ہی مصر سے کوفہ پہنچ جانا ایک معمولی عمل نہیں تھا بلکہ اس کے تاریخی پس منظر کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ در حقیقت عمرو عاص اور معاویہ کی جانب سے لشکر امیر المومنین (ع) میں شامل ہونے پر مامور تھا جیسا کہ دیگر منافقین جیسے اشعث بن قیس اور اس کے ساتھی بھی آپ کے لشکر میں شامل تھے۔ لیکن اشعث اور ابن ملجم میں فرق یہ تھا کہ اشعث جانا پہچانا آدمی تھا لیکن ابن ملجم امیر المومنین کے قتل تک ایک مجہول الحال شخص تھا۔ اور منافقین کے لیے خود کو خفیہ رکھ کر جاسوسی کرنا معمولی عمل تھا۔ لہذا وہ لوگ جو ابن ملجم کو حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں میں شمار کرتے ہیں غلطی پر ہیں۔ اگر ابن ملجم کا امیر المومنین کے لشکر میں ہونا ثابت بھی ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ آپ کا شیعہ ہے اس لیے کہ ممکن ہے کہ وہ دشمن کی جانب سے جاسوسی پر مامور ہو اور خاص طور پر جب کسی کا تاریخی پس منظر سامنے ہو تو اس کا جاسوس ہونا تو یقینی ثابت ہے۔ ابن ملجم کے گزشتہ کارنامے اور پھر بعد میں اس کا حضرت علی (ع) کو قتل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ آپ کے لشکر میں بطور جاسوس شامل تھا نہ بطور شیعہ۔

ابن ملجم کے یہودی ہونے کی دلیل

جب ابن ملجم اپنے قبیلہ کے ایک گروہ کے ہمراہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس بیعت کے لیے آیا تو آپ نے کچھ دیر ابن ملجم کے چہرے پر نگاہ کی اور اس کے کچھ سوالات پوچھے اور ابن ملجم کو قسم دی کہ وہ ان کے سوالات کے صحیح جواب دے۔ امام علیہ السلام نے پوچھا: «أ كنت تراضع الغلمان و تقوم عليهم فكنت إذا جئت فرأوك من بعيد قالوا قد جاءنا ابن راعيه الكلاب قال اللهم نعم» کیا تم جب نوجوانوں سے روبرو ہوتے تھے تو وہ تمہیں دور سے ہی دیکھ کر نہیں کہتے تھے، کتے کا بچہ آ رہا ہے؟ کہا: ہاں۔ « فمررت برجل و قد أيفعت فنظر إليك فأحد النظر فقال لك يا أشقى من عاقر ناقة ثمود قال نعم» کیا تم نے جوانی میں کسی ایسے شخص سے ملاقات کی کہ جس نے تمہیں دیکھتے ہی کہا ہو اے ناقہ صالح کے قاتل سے زیادہ شقی! ابن ملجم نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت علی (ع) نے فرمایا: « فأخبرتك أمك أنها حملت بك في بعض حيضها فتعتع هنيئه ثم قال نعم قد حدثتني بذلك» کیا تمہاری ماں نے تمہیں نہیں بتایا کہ وہ حیض کے ایام میں حاملہ ہوئی اور تم اسی حمل سے پیدا ہوئے؟ ابن ملجم کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور اس کے بعد کہا: ہاں مجھے بتایا۔ اس کے بعد امیر المومنین (ع) نے فرمایا:

« سمعت رسول الله يقول: إن قاتلك شبه اليهودي بل هو يهودي.» (13)

میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے: تمہارا قاتل یہودی کے شبیہ ہو گا بلکہ خود یہودی ہو گا۔

بعض مورخین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ابن ملجم کی ماں یہودیہ تھی اور وہ یہودیہ کی گود میں پروان چڑھا جس کی وجہ سے اس پر یہودی افکار و تعلیمات کا گہرا اثر تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی وہ اثر زائل نہیں ہوا جس کی بنا پر دشمنوں نے باآسانی اسے خرید لیا اور امیر کائنات کو شہید کرنے پر راضی کر لیا۔

حوالے

1. الانساب، ج3، ص95؛ شرح نهج البلاغه، ج13، ص301و302 .
2 . الكامل ابن عدي، ج3، ص464؛ تاريخ¬مدينةدمشق، ج42، ص554.
3 . ضعفاءعقیلی، ج3، ص416؛ تاريخ¬مدينةدمشق، ج42، ص300 .
4۔ طبقات الکبری، ج3، ص35.
5 . الاعلام زرکلی، ج3، ص339؛ الاصابه، ج، ص85.
6 . تاریخ الاسلام، ج2، ص373.
7 . الاستیعاب، ج3، ص1187.
8 . الأنساب، ج3 ، ص25-26.
9 . وہی.
10 . تاریخ الاسلام، ج2، ص373 ؛ الأنساب، ج3 ،ص25-26.
11 . تاریخ الاسلام، ج2، ص373.
12۔ طبقات الکبری، ج3 ص33؛ لسان المیزان، ج5 ص141.

13۔ الخرائج و الجرائح، ج1، ص181-182.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے