بسم اللہ الرحمن الرحیم.. درود و سلام بر محمد و آل محمد (ع) علیہم السلام

تو بناتِ الرسول یعنی نبی کی بیٹیوں پر تحریر لکھنے کا وعدہ تھا جو پورا کرنے جا رہا ہوں..

یہ میرے لیے ایسا موضوع ہے جس پر بفضلِ ابوالفضل میں پوری کتاب ترتیب دے سکتا ہوں، لیکن میرا مزاج آپ سب احباب جانتے ہیں کہ میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ تحریر مختصر و جامع ہو اور ٹو دا پوائنٹ اپنا مدعا آزاد ذہنوں کو ہدیہ کر سکوں تاکہ سمجھنے میں اور جذب کرنے میں آسانی ہو سکے.

تو یہاں بھی اسی عمل کی کوشش کرتے ہوئے اپنے قلم کو دفاع اہل بیت میں استعمال کر کے اپنی قبر کا سامان مہیا کروں گا.
آپ حضرات جانتے ہیں کہ دشمنانِ رسول و آل رسول کی جانب سے معاویہ بن ابوسفیان کے نجس دور سے اب تک یہی کوشش جاری ہے کہ کسی بھی طرح سے ان اشخاص کی شان بڑھا کر جنہیں مبینہ اصحاب سے تعبیر کرایا جاتا ہے شانِ صحابہ کا نام دے کر اہل بیت اور اصحاب کو ایک ہی فضائل کی لڑی میں پرو دیا جائے جبکہ یہ گھناؤنے کام فقط اہل بیت تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ رسول پاک کی ذات کو بھی مسخ کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور اب تک جاری ہیں.

اسی گھناؤنی سازش کا ایک عنوان "بناتِ رسول” کو تاریخ کے تاریکی پنوں میں گڑھا گیا تاکہ اپنے مبینہ صحابی عثمان بن عفان کی شان کو بلند کیا جا سکے چاہے اس عمل سے ذات نبی ہی کیوں نہ مجروح ہو جائے کہ معاذاللہ جو بت پرستی کو ختم کرنے آیا تھا اسی نے اپنی مبینہ بیٹیوں کی شادی بت پرستوں میں کر دی .. اللہ اکبر..

اسی عقیدے کے کچھ نام نہاد محقق شیعوں میں بھی موجود ہیں جو علماء تشیع کی بیان کی گئی روایات کو فقط متن سے ترجمہ کر کے اور رجال سے پرکھ کر اور وہ بھی ان رجالی کتب سے جو کہ خود مجتہدین نے لکھی ہیں عوام کو یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ رسول اللہ کی 4 بیٹیاں تھیں اور اس معاملے میں اہل سنت درست ہیں جبکہ حاضر اور قدیم میں جید علماء تشیع و مجتہدین کا قطعاً یہ نظریہ نہیں..

ایسے نام نہاد کوچک محققین میں آج کل سید علی أصدق نقوی نامی ایک صاحب ہیں جنہیں شاید علوم دینیہ میں فقط سطحی و اصطلاحی علم حاصل ہے اور یہ اپنی ناقص تحقیق پیش کر کے ملت کے جوانوں کو اہل سنت عقائد کی طرف دھکیل رہے ہیں. اور کچھ مخصوص نادان مومنین ان کی ناقص تحقیق سے متاثر ہو کر ہر اس شخص کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں جو حقیقی معنوں میں عقائد و نظریاتِ تشیع کا دفاع کرتا ہے.
اب تمہید بہت طویل ہو رہی ہے تو مختصر کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں..

میں اس تحریر کے پہلے حصے میں اہل سنت کو جواب دوں گا اور آخر میں ان محققِ عالی کو جو اپنا عقیدہ اہل سنت کی جانب پھیر چکے ہیں.

لبیک یا زھراء (س) ✋

اہل سنت کو رسول اللہ سے منسوب بیٹیوں پر قرآن سے جواب:

ایک اہم نقطہ جس کا تذکرہ میں نے اپنی تمہید میں پیش کیا کہ افسانہء بناتِ رسول گھڑنے کا اصل ہدف و فائدہ دراصل بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیان رشتہ داری ثابت کر کے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کو رسول اللہ سے جھوٹی نسبت دے کر اس کی شان کو بلند کرانے کی کوشش تھی.

اس بات کو دہان میں رکھ کر اب آپ قرآن مجید اور اہل سنت تفاسیر کے حوالے ملاحظہ فرمائیں..

دلیل نمبر 01 : رسول خدا کی فقط ایک بیٹی ہونے کا تذکرہ تفسیر درمنثور میں

اہل سنت کے عظیم مفسرِ قرآن امام جلال الدین سیوطی اپنی قرآنی تفسیر، تفسیر الدر المنثور کہ جس کا پورا نام الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورہ رعد کی آیت 29 کی تفسیر میں لکھتے ہیں

(نوٹ: یاد رہے کہ امام سیوطی اپنی اس مایہ ناز تفسیر میں دس ہزار سے زائد احادیث کو جمع کیا ہے۔ وہ اس کے متعلق خود فرماتے ہیں کہ میں نے یہ ایسی تفسیر مرتب کی ہے جس میں تمام احادیث وآثار کو اسانید کے ساتھ نقل کیا)

” امام ابن حاتم نے حضرت فرقد السنجی سے ایک طویل روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ؑ کی طرف انجیل میں وحی فرمائی کہ اے عیسیٰ تم لوگوں کو تبلیغ کرتے ہوئے کہو کہ تم ایمان لاﺅ اللہ پر اور اس رسول پر جو امی نبی ہے جس نے آخر زمانہ میں جلوہ فرما ہونا ہے پس تم اس کی تصدیق کرو اور اس کی اتباع کرو،اونٹ والے ہیں ، زرہ والے ، لاٹھی والے اور تاج والے ہیں جو موٹی آنکھوں والے ہیں جن کے ابرو ملے ہوئے ہیں ۔ چادر والے ہیں اس کی مبارک نسل المبارکة سے یعنی حضرت خدیجہ سے ہے۔۔
(اللہ تعالیٰ نے فرمایا) اے عیسیٰ ! خدیجہ کا ایک محل ہے جو موتیوں سے بنا ہوا ہے، اس میں نہ کوئی اذیت ناک بات سنی جاتی ہے اور نہ کوئی تھکاوٹ ہے،اس کی بیٹی فاطمہ ہے۔اس کے دو بیٹے ہیں، وہ دونوں شہید ہوں گے، یعنی الحسن اور الحسین۔”

حوالہ : تفسیر در منثور، جلد 4، صفحہ 165، تفسیر آیت 29، سورۃ الرعد

تو احباب آپ نے امام سیوطی کی تفسیر کا حوالہ ملاحظہ فرمایا کہ جس میں اللہ نے حضرت عیسٰی ابن مریم پر رسول اللہ کی ولادت سے کئی سو سال پہلے وحی فرما کر بتا دیا کہ رسول اللہ حضرت محمد ابن عبداللہ کی ان کی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہ (س) سے فقط ایک ہی بیٹی ہو گی جن کا نام فاطمہ ہو گا اور اس بیٹی سے دو بیٹے ہونگے حسن اور حسین جو شہید کئے جائیں گے.

اب مجھے میرے اہل سنت بھائی جواب دیں کہ آپ کی انتہائی معتبر تفسیر میں امام سیوطی ایسی حدیث پیش کر رہے کہ جس میں اللہ کی جانب سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ کی فقط ایک ہی بیٹی ہیں تو اگر 3 بیٹیاں اور تھیں تو اللہ نے لگ بھگ 400 سو سال پہلے عیسٰی پر وحی کر کے ان کے بھی نام کیوں نہ بتائے ؟؟ کیا آپ معاذاللہ ثم معاذاللہ اپنے رب سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ 4 بیٹیاں تھیں اور اللہ کو معاذاللہ اس کا علم نہیں تھا.
اب اگر آپ نہیں مانتے تو آپ کافر ہو جائیں گے کیونکہ جو وحی کا انکار کرے وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟

دلیل نمبر 2 : جس کا دین پسند ہو اسے رشتہ دو ۔۔۔ حکم قرآن و رسول اللہ

سورہ بقرہ کی آیت 221 ملاحظہ فرمائیں
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَـٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّـهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٢٢١﴾

خبردار مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرنا جب تک ایمان نہ لے آئیں کہ ایک مومن کنیز مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمہیں کتنی ہی بھلی معلوم ہو اورمشرکین کو بھی لڑکیاں نہ دینا جب تک مسلمان نہ ہوجائیں کہ مسلمان غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے چاہے وہ تمہیں کتنا ہی اچھا کیوں نہ معلوم ہو. یہ مشرکین تمہیں جہّنم کی دعوت دیتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے جنّت اورمغفرت کی دعوت دیتا ہے اور اپنی آیتوں کو واضح کرکے بیان کرتاہے کہ شاید یہ لوگ سمجھ سکیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس پر اُمت کے لیے رسول اکرم کا حکم کیا ہے

جامع ترمذی اور مشکوۃ شریف میں حدیثِ صحیح موجود ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اذا خطب الیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوّجوہ ان لاتفعلو تکن فتنة فی الارض ، وفساد عریض

ترجہ: جب کوئی شخص تم سے رشتہ مانگے کہ جس کے دین اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد بپا ہو جائے گا۔

(جامع ترمذی، صفحہ 148، کتاب النکاح – مشکوة ، صفحہ 267)

قرآن میں واضح ارشاد ہے کہ اللہ کفر و شرک کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی کافروں سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے تو جو چیز اللہ کو نہیں پسند وہ رسول اللہ کو کیسے پسند آ سکتی ہے ؟؟ اور یہاں تک کہ رسول امت کو حکم دے کر جا رہے ہیں کہ دین دیکھ کر رشتہ دو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے معاذ اللہ کہ رسول اپنی بیٹیوں کی شادی کفار و مشرکین سے کریں اور صرف مشرک ہی نہیں بلکہ اسلام کے سخت ترین دشمن کہ جس کی مذمت میں سورہ نازل ہوئی یعنی ابولہب کے بیٹوں سے عتبہ اور عتیبہ سے؟

تو آپ کو اب ماننا ہی پڑے گا کہ وہ رسول اللہ کی بیٹیاں نہیں تھیں ورنہ ان کے رشتے قطعاً نبی اکرم کسی کفار سے کبھی نہ کرتے ۔۔ اور اگر اس پر اصرار کریں گے کہ نہیں چار بیٹیاں ہی تھیں تو یہ قرآن کی اور رسول کی کھلی مخالفت ہو گی جس کا نتیجہ آپ کے خود کافر ہو جانے پر تمام ہوگا.

اب آگے بڑھتے ہیں…

دلیل نمبر 3 : رسول اللہ کی زندگی میں رسول سے منسوب تینوں لڑکیاں یتیم تھیں ۔۔ قرآن سے ثبوت

سورۃ الضحیٰ کی آیت 9 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ نازل ہونے کے شان نزول میں امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں ۔۔

فاما الیتیم فلا تقھر وردی انھانزلت حین صاح النبی علیٰ ولد خدیجہ

ترجمہ : یتیم پر قہر نہ کرو، روایت میں آیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی کریم نے اولادِ خدیجہ کو جھڑکی دی اور بلند آواز سے بلایا۔

(تفسیر کبیر، جلد 8 صفحہ 427، پارہ 30 )

اب اہل سنت خود بتائیں کہ اگر یہ تین بیٹیاں رسول کی اپنی بیٹیاں تھیں تو پھر قرآن نے انہیں یتیم کیوں کہا ؟؟؟ ھاھاھاھاھاھا

دلیل نمبر 4 : رسول اللہ سے منسوب تین بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم رسول اللہ کی لےپالک بیٹیاں تھیں

اہل سنت کی معتبر ترین تفسیر کی کتاب، تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان کی جلد 5 کے صفحہ 9 پارہ 4 میں سورہ نساء کی آیت 23 کی تفسیر میں امام نیشاپوری بیان کرتے ہیں:

آیت : وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٢٣﴾

تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام نیشاپوری لکھتے ہیں:

بربائیکم کما تقول بنات رسول للہ من خدیجۃ

ایسی لڑکیوں کو عربی میں ربیبہ کہتے ہیں یعنی لے پالک پروردہ اور ان پروردہ لڑکیوں کے مثال رسول اللہ کی وہ لڑکیاں تھی خدیجہ سے.

اب آ جائیں آپ کی سب سے معتبر کتاب سے دلیل یعنی صحيح بخاری سے:

امام بخاری اپنی صحیح کی کتاب قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں، باب بَابُ: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ} أَلِنْ جَانِبَكَ میں حدیث نمبر4771 میں نقل کرتے ہیں :

عربی :
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، وابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزل الله: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قال:” يا معشر قريش او كلمة نحوها اشتروا انفسكم، لا اغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا اغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب، لا اغني عنك من الله شيئا ويا صفية عمة رسول الله، لا اغني عنك من الله شيئا، ويا فاطمة، بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا اغني عنك من الله شيئا”.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» ”اور اپنے خاندان کے قرابت داروں کو ڈرا“ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر) آواز دی کہ اے جماعت قریش! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ (اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو) اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے لیے بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔

اب ہمیں اہل سنت جواب دیں کہ کیا دعوتِ ذوالعشیرہ کے موقع پر جب اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی گئی تو کیا تمام بیٹیاں موجود نہ تھیں جو صرف رسول نے حضرت فاطمہؑ کو دعوتِ توحید دی ؟
جب کہ آپ کا خود ماننا ہے کہ فاطمہ زہرا سب لڑکیوں سے عمر میں چھوٹی تھیں تو پھر بڑی لڑکیاں کہاں تھیں کہ اللہ فرما رہا ہے عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ یعنی قریب ترین رشتہ داروں کو دعوت دو ؟؟ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ اگر وہ تین لےپالک بیٹیاں رسول کی اپنی اولادیں ہوتیں تو ضرور بلا ضرور وہ اس دعوت میں شریک ہوتیں ۔۔

ایک اور بات بہت عجیب ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر جنابِ زہرا کم سن تھیں اور بالغ بھی نہیں تھیں جبکہ دوسری بیٹیاں جو آپ مانتے ہیں وہ بالغ اور سمجھدار تھیں تو آخر رسول نے نابالغ بچی فاطمہ کو تو توحید کی دعوت سناتے ہیں جبکہ شادی شدہ بالغ بچیوں کو نہیں سناتے ؟

چلیں اب مزید آگے بڑھتے ہیں…

تاریخ یعقوبی میں ہے کہ

بعث رسول اللہ لما استکمل اربعین سنۃ

یعنی رسول اللہ جب چالیس برس کے ہو گئے تو اعلان نبوت فرمایا ۔۔

اور مزید واضح کر دیتا ہوں ۔۔
تاریخ خمیس، نورالابصار، شرح فقہ الاکبر، الاستعیاب میں موجود ہے کہ روای بیان کرتا ہے :
زینب پیدا ہوئیں تو حضور کا سن مبارک 30 برس تھا اور جب رقیہ پیدا ہوئیں تو آپ 33 برس کے تھے.

تو اب ہمارا اہل سنت سے سوال ہے کہ وہ ہم شیعوں کو یہ بتائیں کہ رسول اکرم نے جب اعلان نبوت چالیس سال کی عمر کیا تو اس وقت جنابِ رقیہ کی عمر 7 برس تھی اور بقول آپ کے ہی اعلان نبوت کے فوراً بعد رقیہ کو طلاق مل گئی یعنی ان کی شادی عتبہ کافر سے 6 سال کی عمر میں ہوئی ۔۔
تو آخر ہمارے نبی کو ایسی کیا مجبوری تھی کہ 6 برس کی کم سن بچی کی شادی ایک کافر سے کر دیں اور بعثت کے بعد طلاق ہو جائے تو اس کا نکاح عثمان سے کرا دیں ؟؟؟

اب آتے ہیں اس شخص پر کہ جس کی جھوٹی فضیلت بنانے کی خاطر یہ رسول اللہ کی 4 بیٹیوں کا افسانہ گاڑھا گیا یعنی مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کہ جس کا تعلق رسول اللہ کے شدید ترین دشمن قبیلے بنو امیہ سے تھا.

اہل سنت معتبر کتب تاریخ و حدیث میں واضح الفاظ میں موجود ہے کہ
عثمان نے زمانہ کفر میں رقیہ سے شادی کی ۔۔

عربی : تزوج عثمان فی جاھلیۃ رقیۃ ۔۔۔۔
ترجمہ : عثمان نے رقیہ سے زمانہء جاہلیت میں شادی کی

تو اب ہمیں اہل سنت جواب دیں کہ جو عثمان کو ذوالنورین کہتے کہتے نہیں تھکتے تو عتبہ اور عثمان جب دونوں کافر تھے اس وقت ان دونوں نے رسول اللہ کی مبینہ بیٹی رقیہ سے شادی کی تھی تو اگر یہ فضیلت کا معیار ہے تو صرف عثمان کو ہی کیوں یہ فضیلت اکیلے ملے ؟ اس میں برابری کی بنیاد پر دشمن رسول ابولہب کے بیٹے عتبہ کو بھی فضیلت دینا ہوگی کیونکہ عثمان اور عتبہ اس وقت دونوں مشرکین نے رقیہ سے شادی کی؟

حوالے ملاحظہ فرمائیں :

تاریخ خمیس جلد ا صفحہ 275
تذکرۃ الخواص الامۃ ، صفحہ 172
ذخائرالعقبیٰ، صفحہ 162
تاریخ الخلفاء ، صفحہ 148
مدارج النبوۃ ، صفحہ 458

مزید آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی عثمان کا رسول سے دامادی کا رشتہ اس کے لیے فضیلت رکھتا ہے یا نہیں..

امام طبری اپنی کتاب النضرۃ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ نے امام علی سے ارشاد فرمایا :

اوتیت ثلاثاً لم یوتھن احد ولا انا اوتیت صھراً مثلی ، ولم اوت انا مثلی، و اوتیت زوجة صدیقة مثل ابنتی و لم اوت مثلھا زوجة و اوتیت الحسن و الحسین من صلبک و لم اوت من صلبی مثلھا و لکنکم منی وانامنکم

آپ کو تین ایسی چیزیں ملی ہیں جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئیں حتی مجھے بھی نہیں ملیں ، سسر میری طرح، جبکہ مجھے بھی اپنی طرح کا سسر نہیں ملا ، صدیقہ بیوی ، میری بیٹی کی طرح جب کہ مجھے اس طرح کی کوئی بیوی نہ مل سکی اور آپ کی صلب سے حسن و حسین جیسے بیٹے عطا ہوئے، جب کہ مجھے ان کی طرح بیٹے نہ مل سکے ،لیکن آپ سب مجھ سے ہو اور میں آپ سے ہوں ۔

حوالے ملاحظہ فرمائیں :
ریاض النضرہ فی مناقب العشرۃ المبشرہ، جلد 3 صفحہ 220، باب 4، فصل 6
ینابیع المودۃ ، صفحہ 255، باب 56
فرائد السمطین، صفحہ 142، باب 25

تو اوپر بیان کی ہوئی حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ رسول کی دامادی کا اعجاز فقط امام علیؑ سے مخصوص ہے کیونکہ حدیث میں رسول اللہ نے "لم یوتھن احد” ارشاد فرمایا ہے یہ ایسا جملہ ہے جس میں ” احد ” نکرہ ہے اور سیاقِ نفی میں عموم کا فائدہ دے رہا ہے یعنی دامادِ رسول ہونے کی فضیلت فقط امام علیؑ کا شرف ہے.

نوٹ: اگر اسی حدیث میں مزید غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ رسول نے اپنی بیٹی کو صدیقہ کہہ کر مخاطب کیا تو جو حضرات فدک کے مسئلے میں ابوبکر کی صداقت کے قائل ہیں تو یہ حدیث کے الفاظ ان کے منہ پر طمانچہ ہیں.

آگے چلتے ہیں…

آپ لوگ کہتے ہیں کہ عثمان بہت غنی تھا ۔۔ تبھی اس کے ساتھ غنی لگاتے نہیں تھکتے ۔۔

تو اب میں قرآن سے آپ کو ایک دلیل پیش کرتا ہوں جو نبی کی فقط ایک بیٹی جنکا نکاح مولائے کائنات سے ہوا تھا ان کی سخاوت میں نازل ہوئی یعنی سورۃ دھر یا سورۃ انسان کی آیت 8 اور 9 میں ارشاد ہوتا ہے

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾

یہ اس کی محبت میں مسکینً یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ

اس آیت کے شانِ نزول میں ہے کہ یہ آیت تب نازل ہوئی جب مولا علی، بی بی زہرا اور حسنینؑ نے 3 دن بھوکے رہ کر روزہ رکھا اور اللہ کی راہ میں سخاوت پیش کرتے ہوئے اپنی غذائیں یتیم، فقرا و مساکین و اسیر کو دے دیں تھی ۔۔

اس واقعہ کا شان نزول کا واقعہ تفصیل کے ساتھ ان کتابوں نے موجود ہے جن کے متن کو اختصار کی وجہ سے نقل نہیں کر رہا ۔۔

کفایت الطالب ، صفحہ 345 باب 97
تذکرہ خواص الامہ صفحہ 176 باب 11
مناقب خوارزمی ، صفحہ 190 باب 170

اب میں اہل سنت سے سوال کرتا ہوں کہ جب عثمان اتنا بڑا سخی تھا اور رسول کی ایک بیٹی اس کے نکاح میں تھی تو آج تک قرآن میں ایک آیت بھی اس کے غنی ہونے پر کیوں نہیں آئی؟؟؟ اگر کوئی آئی ہے تو ہمیں دکھائیں.. 😂

اب آخر میں کچھ کیلکولیشن تاریخ سے پیش خدمت ہے :

میرے بھائیوں کوئی بھی عام سا مسلمان تھوڑی سی عقل رکھنے والا یہ تین بیٹیوں کا جھوٹا اور من گھڑت قصہ مان ہی نہیں سکتا کیونکہ کہ یہ عقل و منطق کے خلاف ہے.
شیعہ و سنی دونوں مانتے ہیں کہ رسول اللہ کی شادی حضرت خدیجہ سے 25 سال کی عمر میں ہوئی.
اور یہ بھی دونوں مانتے ہیں کہ رسول اللہ کی بعثت 40 سال میں ہوئی.
اور یہ بھی آپ کے علماء نے لکھا کہ اعلان بعثت سے 5 سال پہلے ان تینوں بیٹیوں کی شادی رسول اللہ نے معاذاللہ مشرکین سے کر دی تھی.
اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ کی شادی کے چار سال بعد بی بی خدیجہ سے اولاد ہوئی.
ٹھیک؟؟ چلیں اب جمع تفریق کرتے ہیں.

شادی ہوئی 25 سال میں.. اعلان نبوت کیا 40 سال میں..
40 – 25 = 15 سال
5 سال بعثت سے پہلے شادیاں کر دیں.
15 – 5 = 10 سال.. ٹھیک
شادی کے 4 سال تک اولاد نہیں ہوئی..
10 – 4 = 6 سال

اب آپ اگر تھوڑی بھی عقل رکھتے ہیں تو مجھے سمجھا دیں کہ 6 سال میں 3 بیٹیاں پیدا بھی ہو گئیں اور اُن کی شادیاں بھی ہو گئیں یہ کیسے ممکن ہے 🙂 ھاھاھا..

والسلام علیکم ، احقر #ابوعبداللہ

رابطہ : facebook.com/Iamabuabdullah.zaidi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے