السلام علیکم مومنین و مومنات،
سوشل میڈیا پر کچھ مومنین کو مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ وہ اذان و اقامت میں علیا ولی اللہ کی گواہی کو لے کر جید علماء تشیع و مجتہدین پر سب و شتم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں.
ہوا یہ کہ ڈاکٹر نجاح طائی کی جانب سے دنیائے شیعہ کے عظیم مناظر جنابِ ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی (حفظ اللہ) پر لگائی جانے والی تہمت کے جواب میں قبلہ مولانا شیخ تقی ہاشمی النجفی سے ڈاکٹر سماوی کی ملاقات کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں عظیم مناظر نے قبلہ ہاشمی صاحب کے اسی تہمت والے سوال کے جواب میں اپنا موقف واضح ترین الفاظ میں بیان کیا اور اپنے اوپر لگائے جانے والی تہمت سے خود کو بری کیا جو کہ مخصوص مومنین کو شاید پسند نہیں آیا یا ان کے مقاصد پر پانی پھیر گیا.
اسی وجہ سے ان مخصوص حلقوں نے مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی کو ان عظیم الشان فقہاء تشیع کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جو غیبتِ امام سے اب تک اس ولایت کا ہر محاذ پر دفاع کرتے آ رہے ہیں.
تو مجھے ضروری محسوس ہوا کہ اب مختصراً اذان و اقامت میں شھادتِ ثالثہ پر عظیم الشان شیعہ علماء و مجتہدین عظام کے اقوال کو نقل کروں تاکہ عام مومنین و مومنات علمائے حقہ کے خلاف کی جانے والی ایسی سازش سے ہوشیار رہیں.
بس جلدی جلدی بیان کر کے تحریر کو ختم کرتا ہوں، اگر کسی کو شھادتِ ثالثہ کے مسئلے پر کوئی تحفظات ہوں تو وہ میری اس سلسلے میں لکھی گئی تحریر ملاحظہ فرما سکتے ہیں.
یہاں فقط کچھ احادیث اور پھر مختصراً اقوالِ علماء کا بیان…
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اگر کسی کا ولایتِ امیرالمومنین علیہ السلام پر عقیدہ نہیں تو اس کی نماز کجا کوئی بھی عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں اور ناصرف قبول نہیں بلکہ اس سانسیں تک حرام ہیں.
چلیں جی پہلے احادیث ملاحظہ فرمائیں
صادق آل محمد امام صادق علیہ السلام اس آیت ( (الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والذین یمکرو ن السیئات لھم عذاب شدید)(سورہ فاطر١٠) ترجمہ : پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے؛ کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس سے مراد ہم اہل بیت ہیں، فمن لم یتولنا لم یرفع اللہ عملا، پس جو شخص ہماری ولایت کو قبول نہیں کرتا ہے تو خدا وند متعال اس کے کسی بھی عمل کوقبول نہیں کرتا ۔
(اصول کافی؛ ١٤٣٠ )
زرارہ سے روایت ہے کہ امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے؛ نماز، زکات ، حج ، روزہ اور ولایت ، زرارہ کہتے ہیں میں نے امام سے معلوم کیا کہ ان پانچ میں سے کس کا رتبہ بلند ہے اور کون سی چیز افضل ہے ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا ولایت ، کیونکہ ولایت ان سب کی کنجی ہے.
(اصول کافی، ٢ ١٨)
رسول خدا (ص) ارشاد فرماتے ہیں :
والذی بعثنی بالحق بشیرا ، ما استقر ّ الکرسیّ والعرش ، ولا دار الفلک ولا قامت السما وات والأرض الا بأ ن کتب اللہ علیہا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیر المؤمنین.
ترجمہ : قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا بناکر بھیجا، عرش و کرسی اس وقت تک مستقر نہیں ہوئے ، نہ ہی افلاک نے حرکت کی اور نہ زمین و آسمان قائم ہوئے مگر جب ان پر خداوند متعال نے یہ لکھ : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی أمیرالمؤمنین.
(بحار الأنوار ٢٧٨)
یہ تھیں وہ چند احادیث جنہیں انہی فقہاء و محدثین نے ہم تک پہنچایا جنہیں آج یہ گروہ سب و شتم کر رہا ہے.
چلیں اب جلدی جلدی اذان و اقامت میں شھادتِ ثالثہ پر علماء کے اقوال بھی نقل کر دوں..
1: علامہ مجلسی (رح) لکھتے ہیں :
واقول لا یبعد کون الشہادة بالولایة من الاجزاء المستحبة للاذان۔ ولو قا لہ الموذن او المقیم لا بقصد الجزئیة بل بقصد البرکة لم یکن آثما
(بحار الانوار، ٨١١١١ و ١١٢،کتاب الصلاة ، باب الاذان والاقامة)
ترجمہ : اور میں کہتا ہوں کہ ولایت کی گواہی کا اذان کے مستحب اجزاء میں سے ہونا بعید نہیں ہے … اور اگر مؤذن یا مقیم اسے جزء تصور کئے بغیر برکت و ثواب کی نیت سے پڑھے تو وہ گنہگار نہیں ہوگا.
2: علامہ طباطبائی (رح) اپنی کتاب تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں:
اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ولایت کے بغیر نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی لئے ہم لوگ نماز سے پہلے اذان و اقامت میں اشہد ان علیا ولی اللہ، قرائتِ نماز میں اھدنا الصراط المستقیم اور تشھد میں درود پڑھ کر محمد وآل محمد علیہم السلام کی محبت اور ولایت کا ثبوت پیش کرتے ہیں.
(تفسیر المیزان ١ ٤١)
ایک اور مقام پر لکھا علامہ لکھتے ہیں :
صل اذا ما اسم محمد بدا علیہ و الآل فصل لتحمدا
واکمل الشھادتین باالتی قد اکمل الدین بھا فی الملة
جب محمد (ص) کا نام لیا جائے تو ان پر اور ان کی آل پر صلوات پڑھو ، اورشہادتین کو اس شہادت کے ذریعہ کامل کرو جس سے ملت میں دین کامل ہوا ۔
(منظومہ ، سنن و آداب اذان)
3: صاحب الجواہر لکھتے ہیں :
ولا باس بذکر ذلک لا علی سبیل الجزئیة عملا بالخبر المزبور ۔۔۔بل لو لا تسالم الاصحاب لامکن دعوی الجزئیة بناء علی صلا حیةا لعموم لمشروعیة الخصوصیة
(جواہر الکلام؛ ٩٨٧)
ترجمہ : مذکورہ روایت پر عمل کرتے ہوئے اذان میں شہادت ثالثہ کو جزء کی نیت کے بغیر پڑھنے میں کوئی عیب نہیں ہے بلکہ اگر علماء کا اس کے جزء نہ ہونے پر اجماع نہ ہوتا تو اس کے جزء ہونے کا دعویٰ کرنا بھی ممکن تھا اس لئے کہ عام میں (کسی بھی عمل کی) خصوصی مشروعیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے!
اور پھر اپنی کتاب "نجاة العباد” میں لکھتے ہیں :
یستحب الصلوات علی محمد وآل محمد عند ذکر اسمہ و اکمال الشھادتین بالشھادة لعلی بالولایة للہ و امرة المومنین فی الاذان و الاقامة وغیرہ ۔
جب محمد (ص) کا نام لیا جائے تو ان اور ان کی آل پر صلوات بھیجنا مستحب ہے اور اسی طرح اذان و اقامت وغیرہ میں شہادتین کو علی علیہ السلام کی ولایت اور ان کے امیر المومنین ہونے کی گواہی سے کامل کرنا مستحب ہے.
4: آیت اللہ العظمیٰ سید خوئی (رح) فرماتے ہیں
والشہادة بولایة امیرالمومنین علیہ السلام مکملة للشھادة بالرسالة و مستحبة فی نفسھا وان لم تکن جزء من الاذان و الاقامة ۔
(المسائل المنتخبة؛ ٨٧)
ترجمہ : علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی، ر سالت کی گواہی کو مکمل کرنے والی ہے اور بذات خود مستحب ہے اگرچہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے ۔
5: شیخ الفقھاء والمجتھدین آیت اللہ العظمی اراکی (رح) لکھتے ہیں :
اشہد ان علیا ولی اللہ جزء اذان و اقامت نیست ولی خوب است بعد از اشہد ان محمدا رسول اللہ ، بقصد قربت گفتہ شود ۔
ترجمہ : اشہد ان علیا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے اشہد ان محمد رسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھا جائے
(توضیح المسائل ١١٩،مسئلہ ٩١٢.)
6: مرحوم ملا احمد نراقی (رح) نے اذان میں شہادت ثالثہ کو مکروہ جاننے والوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا :
وعلی ھذا فلا بعد فی القول باستحبابھا فیہ للتسامح فی أدلتہ، و شذوذ اخبارھا لا یمنع عن اثبات السنن بھا کیف وتراھم کثیرا یجیبون عن الاخبار بالشذوذ فیحملونھا علی الاستحباب ۔(مستند الشیعہ)
اس بناء پر ادلہ تسامح کے ذریعے شہادت ثالثہ کا اذان میں مستحب ہونا بعید نہیں ہے اور اخبار کا شاذ ہونا مستحبات کے اثبات میں مانع نہیں بن سکتا اور یہ کیسے ممکن ہے جبکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر فقہاء اخبارِ شاذ کے ذریعے جواب دیتے ہیں اور انہیں استحباب پر اطلاق کرتے ہیں۔
7: آیت اللہ العظمیٰ بروجردی (رح) لکھتے ہیں :
والشھادة لعلی (ع) لیست جزء من الاذان ولکن لا باس بالاتیان بھا بقصد الرجحان بعد الشھادة بالرسالة کامرمستقل:
(المسائل الفقیة ، فتاوی آیت اللہ بروجردی .)
ترجمہ : علی علیہ السلام کی گواہی اذان کا جزء نہیں ہے لیکن رسالت کی گواہی کے بعد مستقل امر کے طور پر ثواب کی نیت سے بجا لانے میں کوئی عیب نہیں ہے.
8: آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی فرماتے ہیں :
اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان واقامت نیست ولی خوب است بعد ازاشھد ان محمد ا رسول اللہ بقصد قربت گفتہ شود.
(توضیح المسائل ١٩٠، مسئلہ ٩٢٨)
ترجمہ : اشہد ان علیا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اشہد ان محمدا رسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھا جائے۔
9: رہبر انقلابِ اسلامی امام خمینی (رح) اپنے رسالے میں لکھتے ہیں :
اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان واقامت نیست ولی خوب است بعد از اشھد ان محمدا رسول اللہ بہ قصد قربت گفتہ شود.
(منتخب توضیح المسائل ١٠٣مسئلہ ٤٦٩ )
ترجمہ : اشہد ان علیا ولی اللہ اذان واقامت کا جزء نہیں ہے لیکن اشہد ان محمدا رسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھنا بہتر ہے.
10: آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم لکھتے ہیں :
لا با س بالاتیان بہ بقصد الاستحباب المطلق، بل ذلک فی ھذہ الاعصار معدود من شعائر الایمان ورمز التشیع ، فیکون من ھذہ الجھة راجحا شرعا ، بل قد یکون واجبا۔
( مستمسک العروة ٥٤٣٨.)
ترجمہ : (اذان میں شہادت ثالثہ کے ) استحباب مطلق کی نیت سے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس زمانہ میں تو یہ شعائر ایمان اور تشیع کی علامت ہے پس اس اعتبار سے اس کا پڑھنا رجحان شرعی رکھتا ہے اور بسا اوقات تو اس کا پڑھنا واجب ہوتا ہے!
11: رہبر شیعیان جہان آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کے بارے میں ہونے والے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
شرعا لیست جزء من الاذان ولاالاقامة ، ولکن لا مانع منھا اذا لم تکن بقصد الورود والجزئیة للاذان والاقامة ، بل تکون راجحة اذا کانت لمجرد اظھار الاعتراف والاذعان بما یعتقدہ فی خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی اوصیاء ہ المعصومین
( اجوبةالاستفتائات، ١١٣٩، سوال ٤٦٧)
ترجمہ : اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن جزء کی نیت کے بغیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر خلیفہ رسول اور ان کے اوصیاء معصومین کے بارے میں اپنے عقیدہ کااظہار کرنے کی خاطر ہو تو رجحان شرعی رکھتا ہے.
12: آیت اللہ العظمیٰ بہجت (رح) اپنے رسالے میں لکھتے ہیں :
بعید نیست مستحب بودن اقرار بہ ولایت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام در اذان مستحبی در صورتیکہ بہ نیت مطلوب بودن بہ عبارات مختلفی کہ در نہایہ و فقیہ و احتجاج نقل شدہ است کہ ان علیا ولی اللہ و یا علی امیر المومنین ویا بہ عبارت اشھد ان علیا ولی اللہ باشد واما اقرار بہ ولایت در ھر جا اگرچہ در غیر اذان باشد خوب است پس احتیاج بدلیل مخصوص بہ اذان ندارد وکاملترین عبارتی کہ در اینجا گفتہ می شود آن است کہ اقرار بہ خلیفہ بودن یا وصی بودن حضرت امیرالمومنین (ع) وآئمہ طاہرین علیہم السلام در آن باشد ۔
(رسالہ توضیح المسائل ١٢٢،مسئلہ ٧٢٢)
ترجمہ : مستحب اذان میں امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا ان عبارات کے ساتھ جو نہایہ ، فقیہ اور احتجاج میں نقل ہوئی ہیں کہ أنّ علیّا ولی اللہ یا علی أمیر المؤمنین یا أشھد أنّ علیّا ولی اللہ کا اقرار کرنا مستحب ہے. البتہ ولایت کا اقرار اگرچہ اذان کے علاوہ بھی ہو تب بھی بہتر ہے پس اذان میں اس کے اقرار کے لیے کسی خاص دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور اس مقام پر کامل ترین عبارت یہ ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وصی یا خلیفہ ہونے کا اقرار کیا جائے.
13: آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی (حفظ اللہ) لکھتے ہیں :
اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان و اقامت نیست ولی خوب است بعد ازاشھد ان محمد ا رسول اللہ بہ قصد تبرک گفتہ شود لکن بہ صورتی کہ معلوم شود جزء آن نیست.
( توضیح المسائل ١٦٠، مسئلہ ٨٤٣. )
ترجمہ : اشھد ان علیا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اشھد ان محمد ارسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھا جائے مگر اس طرح کہ اس کا جزء نہ ہونا معلوم ہو.
14: آیت اللہ العظمیٰ شبیری زنجانی فرماتے ہیں :
أشھد أنّ علیّا ولی اللہ جزء اذان و اقامت نیست البتہ ولایت امیرالمؤمنین وآئمہ معصو مین علیہم السلام از ارکان ایمان است و اسلام بدون آ ن ظاہری بیش نیست وقالبی از معنیٰ تہی است و خوب است کہ پس از أشھد أنّ محمد ا رسول اللہ بہ قصد تیمن وتبرک شہادت بہ ولایت وامامت امیرالمؤمنین و سایر معصومین علیہم السلام بہ نحوی کہ شبیہ اذان و اقامہ نگردد ، ذکر گردد.
(رسالہء توضیح المسائل ١ ٢٢٣،مسئلہ ٩٢٨)
ترجمہ : أشہد أنّ علیّا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے البتہ امیرالمؤمنین اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت ایمان کا رکن ہے اور اس کے بغیر اسلام ایک ظاہر اور معنی سے خالی قالب کے سوا کچھ اور نہیں ہے اور بہتر یہ ہے کہ أشھد أنّ محمد ا رسول اللہ کے بعد تبرک اور ثواب کی نیّت سے امیرالمومنین اور تمام معصومین علیہم السلام کی خلافت بلا فصل کی گواہی اس طرح سے دی جائے کہ اذان و اقامت کے جملات کے مشابہ نہ ہو.
تو محترم قارئین یہ تھے چہاردہ معصومین علیہم السلام کی نسبت سے 14 علماء تشیع کے اذان و اقامت میں شھادتِ ثالثہ پر نظریات !
تحریر کو یہی ختم کرتا ہوں اس تنبیہ کے ساتھ کہ خدارا اصولی عقیدے کو فروعات پر زبردستی تھوپنے اور معصوم عوام کو علمائے حقہ سے گمراہ کرنے کی سازش سے ہوشیار رہیں کیونکہ غیبتِ امامِ زمانہ (عج) میں تشیع کے دو مضبوط بازو ہیں، ایک عزاداری سید الشھداء (ع) اور دوسرا نظامِ مرجعیت !
کوئی گمراہ نہ کر پائے…
والسلام علیکم #ابوعبداللہ