سوال / مفاذالحجیری / البحرین
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ہم بچپن سے فطرس کی روایات سن رہے ہیں امام صادق ع سے روایت ہے جب حسین بن علی علیھما السلام کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ زمین پہ جاؤ پس جبرائیل اللہ تعالیٰ اور اپنی طرف سے رسول اللہ کو مبارک بعد دے
جبرائیل زمین پہ آتے ہویے پانی کے ایک جزیرے سے گزرے جہاں ایک فطرس نامی فرشتہ تھا خدا کے کسی کام میں سستی نے سبب اس کے پر کٹ گیے تھے اور اس جزیرے میں پھینک دیا گیا تھا اس نے اس جگہ اللہ کی سات سو سال تک عبادت کی یہاں تک کہ حسین مولا ع کی ولادت ہوئی
اس فرشتہ یعنی فطرس نے جبرائیل سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے جبرائیل نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کو نعمت عطاء کی اور ہمیں مبارک کے لیے بھیجا
فطرس نے کہا جرائیل مجھے بھی ساتھ لے چلو ہوسکتا ہے اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ میرے لیے بھی دعا فرما دیں پس جبرائیل نے اسے اٹھایا اور لے آیے جب جبرائیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں پہنچے اللہ تعالیٰ اور اپنی طرف سے مبارک باد دی اور پھر فطرس کا حال بیان کیا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا اسے کہو میرے بیٹے سے اپنے آپ کو مسح کرکے واپس چلا جایے ۔ جب فطرس نے مسح کیا تو شفایاب ہو گیا ۔اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کے اس فرزند کو آپ کی امت کے چند لوگ قتل کرینگے میرے اوپر اس ہستی ع کا یہ حق ہے کہ کوئی بھی زائر اگر زیارت کرے گا میں اس کی زیارت حسین ع تک پہنچانا ،کوئی ان پہ سلام بھیجے گا میں سلام پہنچاؤں گا اور کوئی بھی ان پہ صلاہ پڑھے تو میں اس کی صلوات ان تک پہنچاؤں گا ۔
یہ کہا اور پرواز کر گیا
پس ہمارا سوال یہ ہے کہ اس روایت کی صحت کہاں تک ممکن ہے اور کیسے ایک فرشتہ سے خطاء واقع ہو سکتی ہے ۔
الجواب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
یہ روایت فضائل کے باب میں وارد ہوئی ہے اور فضائل کے باب میں وہ دقت نہیں کی جاتی جو باقی روایات میں کی جاتی ہے جن پہ مذھب کی بنیاد ہوتی ہے ہم بہت تلاش کے بعد بھی اس روایت کی کسی صحیح سند تک نہیں پہنچے ۔اس کی سند میں کچھ مجاھیل موجود ہیں ( یعنی وہ راوی جن کے احوال معلوم نہ ہوں یا وثاقت و عدم وثاقت معلوم نہ ہو ) لیکن مجاھیل کے ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ روایت معصوم ع سے صادر نہیں ہوئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی سند کے روات کی وثاقت یا عدم وثاقت کا فیصلہ نہیں کر سکے لیکن کچھ اور قرائن ہیں جو اس روایت کو تقویت دیتے ہیں ۔مثلا یہ روایت ہماری معتبر کتب میں وارد ہوئی ہیں جیسے بصائر الدرجات اور کامل الزیارات اور امالی شیخ صدوق میں مختلف اور متعدد اسانید سے یہ روایت وارد ہوئی ہے اور اس فرشتہ کا ذکر اور اس کے مولا حسین ع سے مدد مانگنے کا ذکر ہماری دعاؤں کے کتب میں بھی وارد ہوا ہے جیسے مصباح المتہجد (شیخ طوسی ) وغیرہ
اللہ نگہبان
جواب پہ تعلیقہ
علی / ایران
فطرس کا قصہ کس حد تک صحیح ہے کیا یہ فرشتوں کے عصمت کے بارے جو شیعہ عقیدہ ہے اس کے منافی نہیں ہے ؟ کیا عصمت اور اس عقیدے کے درمیان توافق ممکن ہے ؟.
الجواب
برادر محترم
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
فطرس کا قصہ جس کا جو کہ سید الشھداء ع کی ولادت کے واقعات سے تعلق رکھتا ہے یہ مشھور بھی ہے اور ہمارے اعلام نے اسے قبول بھی کیا ہے شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح المتہجد میں دعا نقل کی جس میں یہ واقعہ موجود ہے شیخ صفار نے بصائر الدرجات میں اور ابن قولویہ نے کامل الزیارات میں ،شیخ صدوق نے امالی میں ،نیشاپوری نے روضہ الواعظین میں ، طبری نے دلائل الامامہ میں ، ابن حمزہ نے مناقب میں ،راوندی نے خرائج الجزائح میں ، ابن شھر آشوب نے مناقب میں ، ابن ادریس نے مستطرفات السرایر میں ، اور مشھدی نے ادعیہ المزار میں ، اسی طرح ابن طاؤوس نے ، کفعمی نے المصباح میں ، مجلسی نے بحار میں ، اور ان کے علاؤہ بھی کئی علماء نے اس کو نقل کیا ہے اور شیخ وحید نے منھج المقال نے تعلیقہ پہ لکھا کہ فطرس کا واقعہ مشھور ہے اور مقبول ہے ۔
البتہ جو فطرس کے پر ٹوٹنے کے بارے روایات ہیں تو وہ مختلف ہیں ۔ان میں سے کچھ یہ کہتی ہیں کہ اس کے سامنے امیر المومنین ع کی ولایت رکھی گئی اور اس نے انکار کردیا۔ بعض کہتی ہیں اس کو کسی طرف بھیجا گیا تو اس نے انکار کر دیا ، دونوں کے درمیان جمع ممکن ہے وہ ایسے کہ اسے جس چیز کی طرف بھیجا گیا ہو وہ ولایت علی ع کے متعلق ہو اور اس نے اس میں سستی سے کام۔لیا ہو ۔پھر یہ یاد رکھیں کہ فطرس کے پر کا کٹ جانا اور اس کا جزیرے میں پڑا رہنا عصمت ملائکہ کی تاکید ہے جیسا کہ کوئی انسان اگر سنن تکوینی کے مخالفت کرے تو اس کا اثر اسے بھگتنا پڑتا ہے جیسا کہ کوئی خود کو چھت سے گرا دے ، تو اس کو نقصان تو ہوگا
ظاہرا یہ ہے کہ ملائکہ کے درجات اور مراتب ہیں جن کو وہ جھد ، عبادت اور اداء واجبات میں جلدی کرنے سے حاصل کرتے ہیں اور ان میں سستی کرنے سے ان مراتب و منازل سے نیچے آجاتے ہیں جیسا کہ فطرس کی روایت سے لگتا ہے اور اس روایت سے یہ بھی واضح ہے کہ اہل بیت ع کی شفاعت فرشتوں کو بھی حاصل ہے ۔
اللہ نگہبان
جواب پہ تعلیقہ
ابویقین / عراق
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال بہت اچھا ہے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فطرس کا فعل عصمت کے لیے نقصاندہ ہے یا نہیں مہربانی اس کا جواب دیں ۔
الجواب
برادر محترم
قرآن کے کچھ آیات اور بہت ساری روایات ہیں جو ملائکہ کی عصمت بیان کرتی ہیں ۔
پس جو اس فرشتہ سے صادر ہوا ہے ضروری ہے کہ اس کی تاویل کی جائے تاکہ وہ عصمت کے ساتھ منسجم ہو سکے اسی لیے ہم نے عرض کی کہ جو فطرس سے صادر ہوا یہ عصمت ملائکہ کے لیے موکد ہے اس طرح کہ اس فرشتہ سے جو صادر ہوا اس کی وجہ سے یہ اپنے مالائکہ والے درجہ سے نیچے آگیا البتہ یہ قول اس وقت جب ہم کہیں کہ ذنب جو اس سے صادر ہوا وہ عصمت کے لیے قادح ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ اس سے جو ذنب ہوا یہ عصمت کے لیے قادح نہیں ہے اور اس کو جو عقوبت ہوئی وہ اوامر ارشادی کی مخالفت سے ہوئی ہے جن سے یہ اثر تکوینی لازم ہوتا ہے ۔
اللہ نگہبان
جواب پہ تعلیقہ
موسی الموسوی / عراق
کیا ایسا ممکن ہےکہ ہم روایت کو مکمل طور پہ بیان کردیں ۔؟؟
الجواب
برادر محترم
ہم اپنے کے لیے جناب صفار کی بصائر سے صدوق رح کی امالی سے کچھ روایات نقل کرتے ہی۔ ۔
بصائر الدرجات ص 88
بسند ( سند موجود ہے ہم حذف کر رہے ہیں ) امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت فرشتوں پہ پیش کی اس کو فرشتوں کے قبول کر لیا ایک فطرس نامی فرشتہ نے انکار کیا اللہ تعالیٰ نے اس کے پر کاٹ دیے جب مولا حسین ع کی ولادت ہوئی اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان کو حسین ع کی ولادت کی مبارک دیں جاتے ہوئے یہ فرشتے فطرس کے پاس سے گزرے فطرس نے کہا مجھے بھی ساتھ لے جاؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سے میرے لیے دعا کی گزارش کرو جبرائیل نے کہا میرے پروں پہ سوار ہو جاؤ وہ سوار ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت پہنچ کر مبارک باد عرض کی
جبرائیل نے عرض کی اے اللہ کے رسول فطرس اور میرے درمیان رشتہ اخوت ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے عرض کروں کہ اللہ سے آپ سفارش کریں میرے پر واپس مل جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کیا تو وہ کریگا ؟؟ عرض کی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس پہ علی ع کی ولایت پیش کی جسے اس نے قبول کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا میرا بیٹا جھولے میں ہے اس سے اپنے آپ کو مسح کرو اور شفا یاب ہو جاؤ
وہ حسین ع کے جھولے کی طرف جا رہا تھا اور رسول اللہ اس کے لیے دعا کر رہے تھے رسول فرماتے ہیں کہ جب وہ جارہا تھا تو میں نے دیکھا کہ اس کے ریشوں سے خون بہ رہا تھا یہاں تک کہ وہ جھولے سے خود کو ملنے لگا ۔
آخر میں ہے کہ وہ جبرائیل کے ساتھ اڑا اور واپس اپنے مقام پہ فائز ہو گیا ،
شیخ صدوق امالی میں کہتے ہیں بحذف سند ، راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا ہے وہ فرما رہے تھے کہ جب حسین بن علی ع کی ولادت ہوئی اللہ تعالیٰ نے جبرائیل ع کو حکم دیا کہ کئی ہزار فرشتوں کے ساتھ زمین کے طرف جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو مبارک باد دو ۔جبرئیل نیچے آرہے تھے کہ ان کا گزر ایک بحر کے جزیرے سے ہوا اس میں فطرس نامی ایک فرشتہ تھا جو کہ حاملین میں شمار ہوتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے کسی شئی کے بابت بھیجا تو اس نے سستی کی اللہ کے اس کے پر کاٹ کر اس جزیرے میں پھینک دیا ۔اس جگہ پہ اس نے سات سو سال تک اللہ کی عبادت کی یہانتک کہ مولا حسین ع کی ولادت ہوئی اس فرشتہ نے جبرائیل سے عرض کی جبرائیل کہاں کا ارادہ ہے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعمت عطاء کی ہے ہم مبارک عرض کرنے جا رہے ہیں تو عرض کی کہ مجھے بھی اپنے پروں پہ سوار کرکے لے جاؤ تاکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ میرے حق میں دعا فرمائیں پس جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور مبارک بعد عرض کی اور جبرائیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کو اس کا سارا احوال سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا اسے کہو میرے بیٹے سے خود کو مسح کریے اور واپس اپنے جگہ میں چلا جائے فطرس نے مسح کیا اور اوپر کی طرف پرواز کرگیا اور عرض کرتا گیا اے اللہ کے رسول آپ کی امت اسے شھید کرے گی قیامت تک جو زائر اسکی زیارت کریگا ۔ اور سلام عرض کریگا میں اس کو ان کی بارگاہ میں پہنچا دونگا ۔ یہ کہا اور پرواز کر گیا
اللہ نگہبان
مترجم : مولانا سید اصغر نقوی النجفی