السؤال / احسان / العراق

آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے بھی خدا سے اپنی دعا و مناجات میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا بلکہ بعض احادیث میں عشق کی مذمت بھی وارد ہوئی ہےجیسا کہ امیر المومنین ع سے حدیث وارد ہے جس نے کسی سے عشق کیا تو اس عشق نے اسکی آنکھیں اندھی کردیں دل مریض کر دیا پس وہ خراب آنکھ سے دیکھتااور نا سننے والے کانوں سے سنتا ہے شھوت نے اس کی عقل کو تباہ کردیا اور دنیا نے اسکے دل کو مردہ بنا دیا اور اس کا دل اس پہ قربان ہو گیا پس وہ اس دنیا کا غلام بن گیا ۔۔۔
مترجم : مولانا سید اصغر نقوی، حوزہ علمیہ نجف اشرف
https://aqaed.com/faq/5416
امام صادق ع سے حدیث ہے جب آپ ع سے عشق کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ،،جس کا دل حب الہی سے خالی ہو جائے تو اللہ اسے اپنے غیر کی محبت کا ذائقہ چکھا دیتا ہے نبی اکرم ص نے مودت کے بلند ترین درجہ اور قرب منزلت کو بیان کرنے کے لیے بھی جو حدیث ارشاد فرمائی وہ یہ کہ جو آپ نے امیر المومنین ع کے حق میں فرمایا کہ کل علم ایسے مرد کو دونگا جو اللہ اور اس کے رسول ص سے اور اللہ اور اس کا رسول ص اس سے محبت کرتا ہوگا پس لفظ عشق اگر شدید محبت کے لیے استعمال کرنا درست ہوتا تو نبی اکرم ص اس لفظ کو امیر المومنین ع کے حق میں ضرور استمعال فرماتے نبی ص پاک حضرت علی کو حبیب ع نہیں بلکہ عاشق کا خطاب دیتے کیونکہ مخلوق میں امیر ع کی طرح محبوب و محب الٰہی کوئی نہیں ہو سکتا
سوال .1 کیا لفظ عشق اور اس کے مشتقات کو معصومین کے لیے استعمال کرنا جائز ہے اور جیسا بعض لوگ کہتے ہیں انا عاشق الحسین ،،میں حسین کا عاشق ہوں یا میں جناب زھراء سلام اللہ علیھا کا عاشق ہوں کیا یہ کہنا درست ہے یا نہیں ؟؟؟
سوال ۔2 کیا اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ عشق کو استعمال کرنا اور ذات باری تعالیٰ کو معشوق کہنا درست ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم عاشقان خدا ہیں ؟
سوال .3 جب لفظ عشق محبت کے اعلی مرتبے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو کیا معاذاللہ ایسے ممکن ہے کہ معصومین کی ذوات مقدسہ اس مرتبہ تک نا پہنچی ہوں جبکہ انکی مناجات و دعاؤں میں یہ تعبیر استعمال نہیں ہوئی ؟؟
سوال ۔4 کیا بعض لوگوں کا یہ خیال درست ہے کہ عشق کی دوقسمیں ہیں عشق حقیقی اور عشق مجازی ۔عشق حقیقی وہ عشق جو ذات باری تعالیٰ،اسکی صفات و افعال سے ہو اور عشق مجازی وہ جو انسان کو کسی دوسرے انسان سے ہو اور عشق مجازی وسیلہ ہے عشق حقیقی تک پہنچنے کا ؟؟
الجواب: برادر محترم احسان العبیدی صاحب ،،سلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ لفظ عشق صرف غلط چیزوں اور کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ لفظ اس کے بر خلاف ( یعنی پسندیدہ اور درست چیزوں کے لیے بھی ) بھی استعمال ہوا ہے امام حسین علیہ السلام سے روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں سے عشق کرے ان سے ملنساری کرے دل سے ان کو محبوب رکھے ان سے پورے وجود سے ملے اور ان کے لیے خود کو پیش خدمت رکھے اگر ایسا کرے تو بے فکر ہو جائے کہ اس نے کس حالت میں صبح کی تنگی میں یا کشادگی میں ۔۔۔ اس بنیاد پہ کہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں (اگر یہ ثابت ہو جایے تو ) تو عشق اور اس سے مشتق الفاظ کو خدا کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہ لفظ عشق اللہ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ عشق ہوتا ہی تب ہے جب کسی کو نا پایا جائے یعنی معشوق موجود نا ہو جبکہ لفظ محبت ہر صورت درست چاہے محبوب موجود ہو یا مفقود ہو پس ممکن ہے معصومین علیھم السلام نے اسی لیے لفظ عشق اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال نہ کیا ہو کیونکہ وہ ذات ہر وقت حاضر ہے ان پاک ہستیوں کے دلوں میں موجود ہے پس اس صورت اس ذات واجب کو انکا معشوق کہنا درست نہیں ہوگا بلکہ وہ انکا محبوب ہوگا یہی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ لوگ جو خود کو آئمہ ع کا عاشق کہتے ہیں یہ کہنا درست ہے کیونکہ ان ہستیوں سے ملاقات ممکن نہیں ۔
خدا آپ کا نگہبان ہو
تعليق على الجواب (١) / طوس / عمان
سلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ لفظ عشق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دینا اشکالات شرعیہ سے خالی نہیں مومن کو چاہیے کہ وہ ایسے شبھات سے دور رہے اور نجات کے لیے احتیاط کا دامن تھامے رکھے بالخصوص اعتقادی مسائل میں کئی مقامات میں میانہ راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ہم نے معصومین علیہم السلام سے اقوال و فرامین میں اس قسم کی تعبیرات کو نہیں دیکھا اور نہ ہی قرآن مجید میں اس کا استعمال ہوا ہے پس لفظ حب کے استعمال سے آگے نہیں جانا چاہیے کہ غیر معروف عبارات کہ جنکی مراد ہی واضح نہیں انکا استعمال شروع کردیں ،
یہ درست ہے کہ لفظ کے استعمال کرنے کی یہ شرط نہیں کہ وہ لفظ شارع کی زبان سے جاری ہوا ہو یعنی قرآن و عترت ع نے استعمال کیا ہو لیکن اگر وہ لفظ مقدس ہستیوں یا خدا تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تو پھر شارع کے استعمال کو دیکھنا لازمی ہے ان الفاظ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں جو شارع اور عرف دونوں میں عام رائج اور مستعمل ہون اور ان کے معانی بھی معروف ہوں اور غیر معروف الفاظ سے بچنا ہی بہتر اور راہ نجات ہے اسکے علاؤہ صحیح اور قابل اعتبار روایات میں لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے اور اسی طرح قرآن مجید میں بھی اشد حبا للہ ہی استعمال ہوا ہے لفظ عشق کو استعمال نہیں کیا گیا پس یہ ہمیں حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے پاس سے آپ کو اس لفظ کے استعمال کی اجازت دے دیں اور کہیں کہ لفظ عشق کا استعمال درست ہے اور یہ شدت حب کو بیان کرنے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس لفظ میں ایسی کوئی خرابی یا عیب ہو جسے ہم نا جانتے ہوں عشق الہی ،عشق اللہ جیسے الفاظ اہل تصوف اور گمراہ عارفین کی تعبیرات و اقوال میں ملتے ہیں اور وہ ان کو ایمان کے مراتب اور خدا کے قرب کی سیڑھی خیال کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں پس ان سے زیادہ استعمال کرنا درست نہیں جو ذات الہی نے خود اپنے لیے استعمال نہیں کئے پس ہمارا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے عاشق ہیں اس کا مطلب کہ وہ ہمارا معشوق ہے پس اس لحاظ سے ہمیں دلیل چاہیے کہ شریعت نے اجازت دی ہے وہ واقعا ہمارا معشوق ہے ۔بلکہ ہمیں تو معصومین ع پہ استعمال کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے اور انہی مؤدب و محترم الفاظ کے ساتھ ان کو مخاطب کرنا چاہے جو کہ انہوں نے ہمیں سکھایے ہیں پس آپ کی اس بارے کیا رائے ہے جواب ۔برادر محترم طوس صاحب سلام علیکم ورحمۃاللہ یہ کلام کسی حد تک درست ہے لغت اور اصطلاح کے اعتبار سے لفظ عشق کا استعمال خدا تعالیٰ ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے آل پاک کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔شیخ علی النمازی الشاھرودی مستدرک سفینہ البحار میں کہتے ہیں ،سب سے پہلا ناقدانہ کلام جو اس لفظ کے استعمال پہ نقل ہوا وہ علامہ مجلسی رح سے نقل ہوا پھر ان کے بعد دلائل دئیے جانے لگے کہ اس لفظ کے استعمال کو نادرست ثابت کرتے ہیں اور اس کو استعمال نا کرنے میں احتیاط ہے علامہ مجلسی کا بیان ،،عشق کا مطلب محبت میں حد سے گزر جانا بعض اوقات یہ وھم کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ باطل اور برے کاموں کے ساتھ مختص ہے پس یہ اللہ کے محبت وغیرہ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ محبت الٰہی ایک امر حق و درست شئی ہے اور لفظ عشق اس کے خلاف پہ دلالت کرتا ہے ۔
اگرچہ احتیاط اسی میں ہے توقیفیت کی بنیاد پہ لفظ عشق اور اس کے مشتقات کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال نہ کیا جائے ۔امالی شیخ صدوق ،اور علل الشرائع میں مفصل سے روایت ہے کہ میں نے امام حسین ع سے عشق کے متعلق پوچھا تو امام ع نے فرمایا کہ جو دل محبت خدا سے خالی ہو تو خدا اسے اپنے غیر کی محبت کا ذائقہ چکھادیتا ہے میں کہتا ہوں کہ میں نے اس حدیث کو امالی شیخ صدوق اور علل میں دیکھا ۔اور نہج البلاغہ خطبہ نمبر 108 میں ہے کہ امام ع نے فرمایا جو عشق کرتا ہے تو یہ عشق اس کی آنکھ کی بصارت کو تباہ یا کمزور کردیتا ہے دل کو مریض کردیتا ہے وہ خراب آنکھ سے دیتا اور نا سننے والے کانوں سے سنتا ہے ۔۔۔۔اور ابن ابی حدید کی شرح نہج البلاغہ کی آخری جلد جو امام ع کی طرف منسوب حکمتوں سے متعلق ہے اس کی حکمت نمبر 46 میں ہے عشق ایک مرض ہے نا اس کا کوئی اجر ہے نا کوئی قیمت ہے اور حکمت نمبر 807 میں ہے کہ عشق ایک بیماری ہے جو لاابالی دل کو لگ جاتی ہے یہاں کی مناسب ہے کہ محدث نوری کا کلام نقل کیا جائے جو کہ نفس الرحمن فی العشق میں ہے اور اسی کا خاصہ سفینہ البحار میں ہے کہ عشق محبت میں حد سے آگے جانے کو کہتے ہیں اور اطباء کے مطابق کہ ایک وسواسی بیماری ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس طرح کہ بعض صورتیں یا عادات و خصائل اس کی فکر پہ مسلط ہو جاتے ہیں زیادہ تر یہ بیماری جوان اور کنوارے لڑکوں کو لگتی ہے دیکھنے اور سننے سے یہ زیادہ ہوتی ہے سفر اور جماع سے کم ہوتی ہے اور اطباء کہتے ہیں معشوق سے ملنے سے بہتر اس مرض کا کوئی علاج نہیں
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مجامعت کی خواہش پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس سے صرف معشوق کو دیکھتے اور ملنے کی خواہش ہوتی ہے اسی صنف سے ان لوگوں پہ بھی یہ بیماری عارض ہوتی ہے جو خود کو عارفین سمجھتے ہیں اور وہ اس عشق سے عشق الہی کی طرف منتقل ہوتے ہیں یعنی معرفت الٰہی کی طرف ۔۔۔ہمارے استاد اس کلام کے رد میں فرماتے ہیں یہ ایسا راستہ ہے کہ اس پہ چلنے والا جیسے جیسے آگے جائیے گا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے دور ہوتا جائیے گا جو کہ سالکین کی سفر کی اصل منزل ہے کیونکہ دل کو حب الہی سے خالی ہونا مختلف خیالات اور تصویروں کے غلبہ کی بڑی وجہ ہے پس یہ چیز جو خدا سے دور کرنے والی ہے یہ قرب الٰہی کا زریعہ کیسے بن سکتی ہے جبکہ یہ چیز واضح ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے وہی طریقے ہیں جو خود اس ذات نے معین فرمائے ہیں پس ان طرق میں جوانوں کی محبت وغیرہ شامل نہیں ہے کہ ان کے زریعے اللہ تک جایا جائے مگر یہ کہ ہم کہیں کہ معاذاللہ دین کے باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو دین کے خیانتکار اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے چور ہیں ۔پس گزشتہ بیان سے سمجھ آگیا محبت میں افراط کو لفظ عشق سے تعبیر کیا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ آئمہ ع کی روش میں اس لفظ کا کہیں استعمال نہیں ہے انہوں نے اپنے بیانات مناجات اور متقین و مومنین کی صفات بیان کرتے ہویے کہیں بھی اس تعبیر کو استعمال نہیں کیا اور نا ہی امام کے فضائل ،خصائل اور صفات کا ذکر کرتے اس کو استعمال کیا نا ہی ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئیے استعمال کیا جو خاصان خدا اور سر وجھر میں اس کے دوست ہیں کیا سید الساجدین ع سے بڑا کوئی محبوب خدا ہو سکتا ہے تو کیا ان کی نصیحتوں اور مناجات میں لفظ عشق ہے ؟؟؟
پس جو ان جیسا بننا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق اقوال افعال اور طریقہ میں انکی اتباع سے باہر نہیں جاتا ۔اور جہاں تک خدا تعالیٰ کے لیے استعمال کی بات ہے تو اسماء الہی توقیفی ہونے کی بناء پہ مزید کلام کی گنجائیش نہیں پس بہت سارے ایسے الفاظ ہیں جن کا استعمال ذات الہی پہ لغوی اور عرفی اعتبار سے بالکل درست ہوتا ہے (مگر اجازت نا ہونے کی بناء پہ استعمال نہیں کیے جاتے ) بعض اوقات اللہ کے لیے مرادف لفظ بھی استعمال کرنا درست نہیں وہی استعمال کریں جو نص یا روایت میں کیونکہ اللہ کے لیے کسی لفظ کے استعمال کے جائز ہونے کے لیے یہ ضابطہ نہیں کہ لغوی طور پہ معنی درست ہے بلکہ ضابطہ یہ ہے کہ شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ نہیں یا شریعت نے کہیں استعمال کیا ہے یا نہیں لفظ محبت یا حب کی طرح لفظ عشق خدا تعالیٰ کے لیے وارد نہیں ہوا اور اس کے اولیاء ع کا استعمال نہ کرنا بھی دلیل ہے کہ یا تو اس لفظ کا استعمال ہی درست نہیں یا کم ازکم نا پسند ہے کیونکہ عرف میں اس لفظ کو خواہش نفس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اگر اس کا استعمال درست ہوتا تو ہمارے نبی ص کو حبیب خدا ص کی جگہ عاشق الٰہی کے نام سے مخصوص کیا جاتا جیسے ابراھیم ع کو خلیل اور موسی ع کو کلیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔مگر حیرت ہے محدث نعمت اللہ جزائری پہ کہ انہوں نے اپنی کتاب انوار نعمانیہ کو مختلف جگہوں سے اس لفظ عشق حقیقی و مجازی کی تعبیرات سے پر کردیا ہے اور اولیاء اللہ کے لیے لفظ عشاق اللہ اور امام ع کے لیے سید العاشقین کا لفظ استعمال کیا ہے سید جزائری جیسی علمی شخصیت کی نسبت یہ بات کافی حیرت انگیز ہے اگرچہ سید کے علاؤہ اگر وہ لوگ جو اخبار آئمہ ع کو پس پشت ڈال چکے ہیں وہ یہ بات کرتے تو مقام حیرت نہ تھا ۔۔
تمام شد ۔اللہ نگہبان