عقائد و نظریات

مسئلہ تحریفِ قرآن، جمع قرآن، عثمان بن عفان اور حقیقی شیعہ نظریات

بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله ربّ العالمين ، والصلاة والسلام على محمّد وآله الطيّبين الطاهرين ، ول_عنة الله على أعدائهم أجمعين ، من الأوّلين والآخرين،
وبعد : فان الله عز وجل قال إنّا نحن نزّلنا الذكر وإنّا له لحافظون
(سورة الحجر 9)

مومنین و مومنات پر سلام ہو ۔۔
آج کی تحریر ایک مومن بھائی کی خاص خواہش پر پیش کر رہا ہوں، جو اہل سنت سے مذہبِ حق قبول کر کے شیعہ ہوئے ہیں اور اُن کے بقول گھروالے اور دیگر اقرباء نے قرآن مجید کو لے کر ان پر محاذ کھولا ہوا ہے کہ شیعہ تو تحریف قرآن کے قائل ہیں اور وہ موجودہ قرآن کو نہیں مانتے اور اگر کچھ شیعہ مانتے بھی ہیں تو موجودہ قرآن تیسرے خلیفہ و دیگر اصحاب نے جمع کیا تھا اوراُن اصحاب کے جمع کردہ قرآن کو شیعہ کیسے مان سکتے ہیں جن اصحاب کو یہ خود نہیں مانتے ؟ اگر شیعہ موجودہ قرآن کو حق مانتے ہیں تو وہ اپنی ہی کتابوں سے یہ دعویٰ سچ ثابت کر کے دکھا دیں؟

اگر شیعہ یہ مانتے ہیں کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ پر نازل ہوا اور اسے عثمان بن عفان نے جمع کیا تو یہ تیسرے خلیفہ کی فضیلت ہے جس کا انکار کرنا شیعوں کے لیے ممکن نہیں تو انہیں ہمارے تیسرے خلیفہ کو برحق خلیفہ ماننا پڑے گا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ

خیر ۔۔ مومنین یہ جمعِ قرآن اور شیعوں پر تحریف قرآن کا عنوان اپنے اندر بہت سے عناوین رکھتا ہے اور اگر ہر عنوان کو اس تحریر میں شامل کیا گیا تو تحریر، تحریر سے ہٹ کر مکمل کتاب کی شکل اختیار کر لے گی جس کا متحمل فی الحال نہیں ہو سکتے کیونکہ ان پر مختلف کتابیں جید علماء شیعہ کی جانب سے لکھی جا چکی ہیں۔

تو اس تحریر کو طوالت سے بچاتے ہوئے انتہائی اختصار سے (مگر جامع) ان جوابات کی کوشش کروں گا جو ہمارے سنی سے شیعہ ہوئے بھائی سے اہل سنت کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے اس سوالی اعتراض کا جواب ہو جائے کہ قرآن کو جمع کرنا ایک بڑی فضیلت ہے اور یہ فضیلت تیسرے سقیفائی خلیفہ عثمان بن عفان کو حاصل ہے۔۔۔

جواب: ہمارے نادانِ قاصر یا نادانِ مقصر اہل سنت بھائیوں کو اس گمان سے باہر لاؤں کہ اپنے تیسرے خلیفہ کو جو آپ یہ فضیلت بعنوان "جامع قرآن و مجمع قرآن” دے رہے ہیں تو میرے بھائیوں آپ کے اموی عثمان نے پورے قرآن کو جمع نہیں کیا تھا بلکہ اپنی خلافت میں پہلے سے موجود قرآنی نسخوں کو آگ لگا کر اللہ کی کتاب کی توہین کی تھی اور فقط اور فقط مسلمانوں کو ایک قرآنی قرائت پر جمع کیا تھا اور وہ بھی اپنے سیاسی مقاصد اور اہداف کی خاطر !
اور دوسری بات، بالفرض یہ مان بھی لیں کہ عثمان نے پورا قرآن مجید جمع کیا تھا تو آپ کی اپنی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ اس جمع آوری میں امام علی علیہ السلام کی تائید و نصرت شامل تھی تو پھر کیسے یہ فقط عثمان ہی کے لئے فضیلت کا باعث بنا ؟؟

اگر قرآن کو جمع کرنا اتنا ہی بافضیلت ہے جس سے عثمان کے بے پناہ جرائم کو نظر انداز کرکے اسے خلیفہ برحق مان لیں تو یہاں بھی آپ کی دال نہیں گلے گی کیونکہ آپ کی اپنی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ سب سے پہلے قرآن کو جمع کرنے والے حقیقی خلیفۃ اللہ امام علی علیہ السلام تھے ناکہ آپ کے تیسرے سقیفائی خلیفہ!

ثبوت کے طور پر کچھ میٹھی میٹھی پکھیاں قبول کریں۔۔

اہل سنت کا سب سے بڑا مفسر جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الإتقان في علوم القرآن میں لکھتا ہے:
من طريق ابن سيرين ، قال : قال علي : لما مات رسول الله – صلى الله عليه وسلم – آليت ألا آخذ علي ردائي إلا لصلاة جمعة حتى أجمع القرآن . فجمعه .
ترجمہ: علی نے کہا: "جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو میں نے قسم کھائی کہ میں اپنا ردائی نہیں لوں گا، سوائے نماز جمعہ کے، جب تک میں قرآن جمع نہ کر لوں۔” تو انہوں نے اسے جمع کیا۔

سیوطی آگے روایت کرتا ہے۔۔
حدثنا بشر بن موسى ، حدثنا هوذة بن خليفة ، حدثنا عوف ، عن محمد ابن سيرين ، عن عكرمة ، قال : لما كان بعد بيعة أبي بكر قعد علي بن أبي طالب في بيته ، فقيل لأبي بكر : قد كره بيعتك ، فأرسل إليه ، فقال : أكرهت بيعتي ؟ قال : لا والله ، قال : ما أقعدك عني ؟ قال : رأيت كتاب الله يزاد فيه ، فحدثت نفسي أن لا ألبس ردائي إلا لصلاة حتى أجمعه . قال له أبو بكر : فإنك نعم ما رأيت .
قال محمد : فقلت لعكرمة : ألفوه كما أنزل الأول فالأول ؟ قال : لو اجتمعت الإنس والجن على أن يؤلفوه هذا التأليف ما استطاعوا .
ترجمہ: (سند) : "جب ابوبکر کی بیعت کے بعد علی بن ابی طالب اپنے گھر بیٹھ گئے، تو ابوبکر کے پاس کہا گیا: "علی نے آپ کی بیعت کو ناپسند کیا ہے،” تو انہوں نے انہیں بھیجا، اور کہا: "کیا آپ میری بیعت کو ناپسند کرتے ہیں؟” انہوں نے کہا: "نہیں، واللہ،” تو ابوبکر نے کہا: "آپ کو میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکا؟” علی نے کہا: "میں نے دیکھا کہ قرآن میں اضافہ ہو رہا ہے، تو میں نے دل میں سوچا کہ میں اپنے ردائی کو نہیں پہنا ہوں گا، جب تک میں اسے جمع نہ کر لوں۔” ابوبکر نے کہا: "آپ نے جو دیکھا، وہ واقعی صحیح ہے۔”
محمد نے کہا: "میں نے عکرمہ سے کہا: "کیا انہوں نے اسے پہلے اور بعد کے مطابق جمع کیا؟” انہوں نے کہا: "اگر جن اور انس ایک جگہ جمع ہوں اور اسے اسی طرح جمع کریں تو وہ یہ نہیں کر سکتے۔”
حوالہ : الإتقان في علوم القرآن، ص: 209

اب الطبقات ملاحظہ فرمائیں کہ ابن سعد کونسی روایت نقل کر رہا ہے۔۔
عن أيوب وابن عون عن محمد قال : نبئت أن عليا أبطأ عن بيعة أبي بكر ، فلقيه أبو بكر ، فقال : أكرهت إمارتي ؟ فقال : لا ، ولكنني آليت بيمين أن لا أرتدي بردائي إلا إلى الصلاة حتى أجمع القرآن . قال : فزعموا أنه كتبه على تنـزيله . قال محمد : فلو أصيب ذلك الكتاب كان فيه علم . قال ابن عون : فسألت عكرمة عن ذلك الكتاب فلم يعرفه
ابن سعد نے "الطبقات” میں کہا:
ایوب اور ابن عون کے ذریعے محمد سے نقل کیا گیا ہے کہ مجھے خبر ملی کہ علی نے ابوبکر کی بیعت میں تاخیر کی، تو ابوبکر نے ان سے ملاقات کی اور کہا: کیا آپ کو میری امارت پر ناپسندیدگی ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اپنی چادر صرف نماز کے لیے ہی لوں گا جب تک کہ میں قرآن کو جمع نہ کر لوں۔ تو انہوں نے کہا: لوگوں نے کہا کہ علی نے اس کو اس کے نازل ہونے کے مطابق لکھا۔ محمد نے کہا: اگر وہ کتاب مل جاتی تو اس میں علم ہوتا۔ ابن عون نے کہا: میں نے عکرمہ سے اس کتاب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے نہیں جانا۔
حوالہ : الطبقات الكبرى لابن سعد، ج2 ص332

اب اہل سنت امام ابن جزی کی التسهیل کا یہ متن ملاحظه فرمائیں:
كان القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مفرقا في الصحف و في صدور الرجال فلما توفي حمعه علي بن أبي طالب على ترتيب نزوله . ولو وجد مصحفه لكان فيه علم كبير ولكنّه لم يوجد
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن مختلف صحیفوں اور لوگوں کے سینوں میں بکھرا ہوا تھا، جب نبی ﷺ وفات پا گئے تو علی بن ابی طالب نے اسے نازل ہونے کے ترتیب پر جمع کیا۔ اگر ان کا مصحف مل جاتا تو اس میں بڑا علم ہوتا لیکن وہ نہیں ملا۔
حوالہ : التسهيل لعلوم التنـزيل (ابن جزي) ج 1 ص 6

مزید کچھ اہل سنت روایات پھر آگے بڑھتا ہوں۔۔
جامع الاحادیث میں سیوطی ، ابونعیم حلیۃ میں، كنز العمال میں متقی هندی، سير أعلام النبلاء میں ذھبی نقل کرتا ہے:
عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْسَمْتُ، أَوْ حَلَفْتُ أَنْ لَا أَضَعَ رِدَائِي عَنْ ظَهْرِي حَتَّى أَجْمَعَ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ، فَمَا وَضَعْتُ رِدَائِي عَنْ ظَهْرِي حَتَّى جَمَعْتُ الْقُرْآنَ»
ترجمہ: علی نے کہا: "جب رسول اللہ کا انتقال ہوا تو میں نے قسم کھائی کہ اپنی چادر کو پیٹھ پر نہیں رکھوں گا، جب تک کہ دو لوحوں کے درمیان جو کچھ ہے اسے جمع نہ کر لوں، تو میں نے اپنی چادر نہیں رکھی جب تک کہ میں نے قرآن جمع نہ کیا۔”

حوالہ جات:
جامع الأحاديث، ج:32 ص: 1
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء – ط السعادة، ج: 1، ص:67
كنز العمال، ج:13، ص: 51
سير أعلام النبلاء – ط الحديث، ج: 11، ص:15

تو ثابت ہوا کہ قرآن کریم کو شہادتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد سب سے پہلے جمع کرنے والے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ آپ نے قرآن کو اس کی نزولی ترتیب کے مطابق جمع کیا اور اس میں آیات کی تشریح و تفسیر بھی شامل کی۔

۔ اب دیکھتے ہیں کہ آپ کے تیسرے خلیفہ نے متنِ قرآن کو جمع کیا تھا یا امت کو قرآن کی قرائت پر جمع کیا تھا آپ ہی کی کتابوں سے ۔۔ لیٹ سی ۔۔

میاں آپ کے خلیفہ عثمان نے قرآن کو جمع کرنے کا خود سے آرڈر نہیں دیا تھا بلکہ رسولؐ اللہ اور مولا علی علیہ السلام کے باوفا ساتھی حضرت حذیفہ بن یمان نے عثمان بن عفان کے دور خلافت میں حضرت ابوذر کی تشییع میں شرکت کے بعد قرآنی نسخوں میں اختلاف کو دیکھتے ہوئے قرآنی نسخوں کو یکساں بنانے اور ایک ہی نسخہ کو تمام اسلامی مملکت میں رائج کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
وہی حذیفہ جنہیں اصحابِ امام علیؑ میں نمایاں مقام حاصل تھا اور انہیں امامؑ کے اصحاب کے ارکان اربعہ میں سے ایک رکن کی حیثیت حاصل تھی۔ ایک روایت میں حذیفہ کو ان سات افراد میں سے ایک قرار دیا ہے جن کے سبب خدا لوگوں پر اپنی رحمتوں کو نازل کرتا ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت فاطمہؑ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور انہیں سپرد خاک کیاتھا۔

اُسی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے عثمان کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو امت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔
صحیح بخاری میں موجود روایت کے مطابق حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا:
يا أميرَ المؤمنينَ أدرِكْ هذه الأمةَ قبلَ أن يختلفوا في الكتابِ كما اختلفَ اليهودُ والنصارى
ترجمہ: اے امیر المؤمنین! اس امت کو اس سے پہلے بچا لیں کہ وہ کتاب (قرآن) میں اختلاف کریں، جیسے یہودیوں اور عیسائیوں نے اختلاف کیا۔
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، حدیث 4987

اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عثمان کا یہ اقدام ظاہری طور پر دینی جبکہ حقیقت میں سیاسی مصلحت کے تحت کیا گیا تھا تاکہ عثمان کی خلافت میں قرآن کے حوالے سے اختلافات ختم کیے جا سکیں اور قرآن کو یکجا کر کے سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر حذیفہ کا یہ مشورہ دینا امام علیؑ کی خاموش مصلحت تھی تاکہ قرآن کو محفوظ اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو باطل خلافت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔

اب اہل سنت ہمیں بتائیں کہ جمع قرآن کی فضیلت عثمان کو ملے گی یا علی علیہ السلام کے شاگرد و غلام حذیفه یمان کو ؟

ابن كثير، فضائل القرآن میں لکھتا ہے:
جمع الناس على قراءة واحدة؛ لئلا يختلفوا في القرآن، ووافقه على ذلك جميع الصحابة
ترجمہ: عثمان نے لوگوں کو ایک قرائت پر جمع کیا تاکہ وہ قرآن میں اختلاف نہ کریں، اور اس پر تمام صحابہ نے اس کی موافقت کی۔
حوالہ : تفسير ابن كثير، جزء 1 صفحة 25

ابن ابی العز الحنفی نے شرح الطحاویہ میں عثمان کے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کرنے کی وضاحت اس طرح کی ہے:

فجمع الناس على حرف واحد اجتماعا سائغا، وهم معصومون أن يجتمعوا على ضلال، ولم يكن في ذلك ترك لواجب، ولا فعل لمحظور، إذ كانت قراءة القرآن على ‌سبعة ‌أحرف جائزة لا واجبة، ‌رخصة من الله تعالى، وقد جعل الاختيار إليهم في أي حرف اختاروه … فلما رأى الصحابة أن الأمة تفترق وتختلف وتتقاتل إن لم تجتمع على حرف واحد، جمعهم الصحابة عليه. هذا قول جمهور السلف من العلماء والقراء، قاله ابن جرير وغيره. ومنهم من يقول: إن الترخص في الأحرف السبعة كان في ‌أول الإسلام، لما في المحافظة على حرف واحد من المشقة عليهم أولا، فلما تذللت ألسنتهم بالقراءة، وكان اتفاقهم على حرف واحد يسيرا عليهم، وهو أوفق لهم -: أجمعوا على الحرف الذي كان في العرضة الأخيرة. وذهب طوائف من الفقهاء وأهل الكلام إلى أن المصحف مشتمل على الأحرف السبعة لأنه لا يجوز أن يهمل شيء من الأحرف السبعة. وقد اتفقوا على نقل المصحف العثماني. وترك ما سواه. وقد تقدمت الإشارة إلى الجواب، وهو: أن ذلك كان جائزا لا واجبا، أو أنه صار منسوخا.
ترجمہ: اس نے لوگوں کو ایک حرف پر جمع کیا، جو کہ صحیح اور جائز ہے، اور وہ اس بات سے معصوم ہیں کہ وہ گمراہی پر متفق ہوں، اور نہ ہی اس میں کوئی فرض چھوڑا گیا، نہ ہی کسی ممنوعہ فعل کا ارتکاب کیا گیا۔ کیونکہ قرآن کو سات حروف پر پڑھنا جائز ہے، نہ کہ واجب۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رخصت ہے، اور انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس حرف کو چاہیں پڑھیں… جب صحابہ نے دیکھا کہ اگر امت ایک حرف پر متفق نہ ہو تو وہ مختلف اور متحارب ہو جائیں گے، تو انہوں نے ایک حرف پر انہیں جمع کیا۔ یہ سلف کے اکثر علماء اور قراء کا قول ہے، جیسے کہ ابن جریر نے کہا۔۔۔
حوالہ: شرح العقيدة الطحاوية – النهي عن الجدال في القرآن- الجزء رقم2

ایک قرائت پر جمع کرنے پر ابن القیم اور فہد الرومی نے دراسات في علوم القرآن میں یہی الاپ لاپے ہیں۔

تو ثابت ہوا کہ عثمان نے پورا قرآنی متن جمع نہیں کیا تھا بلکہ حروف سبعہ (مبینہ قریشی قرات جس کا خود کسی اہل سنت کو علم نہیں) اس میں سے ایک حرف پر جمع کیا تھا۔

اب اگلے حصے کی جانب بڑھتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ عثمان کا یہ اقدام جمع قرآن بغیر امام علی علیہ السلام کے ممکن ہی نہیں تھا ۔۔

مومنین و مومنات، عثمان کے قرآن کو ایک قرائت پر جمع کرنے کے عمل میں حضرت علی علیہ السلام کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا، اور اگر حضرت علی علیہ السلام شامل نہ ہوتے تو یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی علمیت، قرآن کے فہم، اور ان کی شخصیت کی حیثیت سے اس عمل میں ان کا کردار ناگزیر تھا۔ اہل سنت کی معتبر کتب سے ایسی روایات پیش کرتا ہوں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی موجودگی کے بغیر قرآن کو جمع کرنے کا عمل ممکن نہیں تھا۔
ملاحظہ فرمائیں:

مسند احمد میں مولا علی علیہ السلام سے روایت ہے:
مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَقَدْ عَلِمْتُ فِيمَ نَزَلَتْ وَفِي أَيِّ يَوْمٍ وَفِي أَيِّ مَكَانٍ نَزَلَتْ
ترجمہ: کوئی آیت ایسی نہیں نازل ہوئی جس کا مجھے علم نہ ہو کہ یہ کب اور کس مقام پر نازل ہوئی۔
حوالہ : مسند احمد، حدیث 1310

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو قرآن کا مکمل فہم تھا، اور ان کے بغیر قرآن کے جمع کرنے کا عمل ناقص رہتا۔

اہل سنت کی کتب میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ عثمان نے قرآن کو جمع کرنے کے عمل میں امام علی علیہ السلام کا مشورہ اور تعاون شامل تھا اور ان کے مشورے کے بغیر یہ عمل انجام نہیں دیا۔ امام علیؑ کے علمی مقام اور قرآن فہمی کے باعث عثمان کو ان کے مشورے کی ضرورت تھی۔

ابن ابی شیبہ کی "مصنف” میں یہ روایت ملاحظہ فرمائیں:
أنَّ عثمانَ كانَ عندهُ القرآنُ جميعًا، وكان كلُّ ما فعل عثمانُ بإملاء عليِّ بن أبي طالب
ترجمہ: عثمان کے پاس مکمل قرآن تھا، اور جو بھی عمل اس نے کیا، وہ علی بن ابی طالب کے مشورے اور ہدایت پر کیا۔
حوالہ: مصنف ابن أبي شيبة، ج 7، ص 160

یہاں تک کہ مولا علی علیہ السلام نے خود بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ اگر وہ اس عمل میں شامل نہ ہوتے، تو قرآن جمع کرنے کا عمل مکمل نہ ہوتا۔ امام علی علیہ السلام کی موجودگی اس عمل کی تکمیل کے لیے ناگزیر تھی، کیونکہ وہ قرآن کے مستند ترین جاننے والوں میں سے تھے۔

کنز العمال میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:
لو وليت لفعلت في المصاحف ما فعل عثمان
ترجمہ: اگر میں (خلیفہ) ہوتا تو میں بھی مصاحف (قرآن کے نسخے) کے بارے میں وہی کرتا جو عثمان نے کیا۔
حوالہ: کنز العمال، ج 2، ص 574

قرآن کے مختلف قراءات اور لہجوں کے فرق کو دور کرنے کے لیے عثمان نے ایک متفقہ نسخہ تیار کروایا، جس میں امام علی علیہ السلام کا علمِ قرآن اور مختلف لہجوں میں مہارت کا کلیدی کردار تھا۔ مولا علیؑ کا علم، قرآن اور مختلف لہجوں کے فرق کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوا کیونکہ آپ قریشی تھے اور قرآن کی اس قرائت میں مہارت رکھتے تھے، اس لیے ان کی موجودگی اور مشورہ لازمی تھا تاکہ قریش کے لہجے میں قرآن کو مرتب کیا جا سکے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ جب قرآن کی مختلف قرائات میں اختلاف ہوا تو عثمان نے قریش کے لہجے کو ترجیح دی:
قال عثمان: إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيءٍ من القرآن، فاكتبوه بلسان قريش، فإنما نزل بلسانهم
ترجمہ: عثمان نے کہا: اگر تم (کمیٹی کے افراد) اور زید بن ثابت قرآن کے کسی معاملے میں اختلاف کرو، تو اسے قریش کی زبان میں لکھو، کیونکہ یہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
حوالہ: صحیح بخاری، حدیث 3506

امام علی علیہ السلام نے قرآن کے جمع کرنے کے عمل کے دوران عثمان کی خاموش حمایت کی۔ اگرچه بعض اختلافات موجود تھے، لیکن حضرت علیؑ نے امت کے مفاد میں اور قرآن کی حفاظت کی خاطر عثمان کے ساتھ تعاون کیا۔ اگر حضرت علی علیہ السلام اس عمل کی حمایت نہ کرتے تو شاید یہ عمل امت میں متفقہ طور پر قبول نہ کیا جاتا۔

اور صحیح مسلم کی اس ایک روایت کی جانب توجہ کریں :
قال عليّ: القرآنُ لا يأتيهِ الباطلُ من بين يديه ولا من خلفِه
ترجمہ: علی علیہ السلام نے فرمایا: قرآن میں باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔

مولا علی علیہ السلام کی اس بات کی تائید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی اور حمایت کے بغیر قرآن جمع کرنے کا عمل امت میں مقبول نہ ہو پاتا۔

اب اگلے اور سب سے اہم اعتراض کی جانب بڑھتے ہیں جو شیعوں پر تعصب و جہالت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔۔

اعتراض : جب شیعہ حضرات تحریف قرآن کے قائل نہیں تو آخر کیوں شیعہ کتابوں میں تحریف کی روایات ہیں؟

(نوٹ: اس کا شدت سے الزامی جواب اہل سنت کتابوں سے دیا جا سکتا ہے لیکن یہاں صرف علمی جواب پر ہی اکتفا کر رہا ہوں)

جواب: یاد رکھیں کہ جب حدیث کی کتابیں مرتب کی جاتی ہیں تو صرف احادیث کو جمع کرنا مقصد ہوتا ہے، چاہے وہ صحیح ہوں، حسن ہوں، قابل اعتبار ہوں یا کمزور۔ احادیث کا جمع کرنا یہ نہیں ظاہر کرتا کہ ان کا مؤلف ہر ایک روایت پر یقین رکھتا ہے۔ کسی روایت کے ذریعے عقیدت اور ایمان کے لیے کچھ شرائط ضروری ہیں، جو یہ ہیں:

1۔ روایت کا سند صحیح ہو۔
2۔ روایت کی دلالت مکمل اور واضح ہو۔
3۔ جس روایت کو نقل کیا گیا ہے، اس کا کوئی معارض نہ ہو۔
4- روایت کے مضمون کے ساتھ اس طرح تعلق ہو کہ ایک شخص خبر واحد کے ساتھ اسے مان سکے اور اس مضمون پر یقین رکھ سکے۔

اگر ایک روایت میں یہ شرائط پائی جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ناقل اس روایت پر یقین رکھتا ہے۔ ورنہ، صرف روایات کو جمع کرنا اور انہیں کسی کتاب میں درج کرنا ناقل کے ایمان یا عقیدے کی تصدیق نہیں کرتا۔
لہذا، اگر شیعہ علماء اپنی کتابوں میں ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو قرآن کے تحریف کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو یہ ضروری ہے کہ:

سب سے پہلے، یہ جانچیں کہ آیا اس روایت کی سند صحیح ہے یا نہیں؟
یہ دیکھیں کہ آیا اس روایت کی دلالت تحریف قرآن پر مکمل ہے یا نہیں؟
یہ بھی جانچنا ضروری ہے کہ کیا اس نقل کردہ روایت کا کوئی معارض موجود ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ ہمارے پاس ایسی روایات موجود ہیں جو قرآن کے نہ تو بڑھنے اور نہ ہی گھٹنے پر دلالت کرتی ہیں، لہذا یہ روایات ان روایات کے خلاف ہیں جو کہتی ہیں کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مسئلہ ایسی باتوں میں سے ہو جن کو خبر واحد کے ذریعے ثابت کیا جا سکے۔ حالانکہ قرآن کی تحریف کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اسے خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے مضبوط اور مستند دلائل کے ذریعے ثابت کیا جانا چاہیے جیسے کہ متواتر خبر یا مضبوط دلیل۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں امیرالمومنینؑ کے نام مبارک کے ساتھ”آیت ولایت” کے نام سے ایک آیت موجود تھی اور مخالفین نے جان بوجھ کر اسے حذف کر دیا۔ یہ دعویٰ اس قدر آسان نہیں ہے کہ اسے خبر واحد کے ذریعے ثابت کیا جا سکے۔ قرآن کے بڑھنے یا گھٹنے کا مسئلہ بنیادی اور عقیدتی مسئلہ ہے، جسے مضبوط اور مستند دلائل کے ساتھ ثابت کرنا چاہیے، نہ کہ خبر واحد کے ذریعے۔
لہذا، کسی روایت کو ایک کتاب میں درج کرنا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اس کتاب کا مؤلف اس روایت کے مضمون یا دلالت پر یقین رکھتا ہے، جب تک کہ وہ خود اس کا اعلان نہ کرے۔

بہت سے محدثین نے، حالانکہ انہوں نے قرآن کے تحریف پر روایات نقل کی ہیں، لیکن اپنی رائے نہیں دی، جیسے کہ شیخ صدوق، جو اپنی کتاب "اعتقادات الإمامية” میں کہتے ہیں کہ "جو ہمیں یہ تہمات لگاتا ہے، وہ جھوٹا اور بہتان باندھنے والا ہے”۔ اسی طرح شیخ طوسی اور فیض کاشانی نے بھی اپنی کتاب "التبیان” اور "الوافی” میں قرآن کے تحریف کو قطعی طور پر جھوٹا قرار دیا ہے۔
دوسری جانب تحریف کے لیبل کے ساتھ پیش کی جانی روایات کا متن قرآن کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں بلکہ تفسیر و تشریحِ قرآن کی تحریف پر دلالت کرتاہے۔

امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے، کہ انہوں نے ہمیں اس تحریف کی وضاحت کی جو بعض روایات میں بیان ہوئی ہے، آپ نے سعد الخير سے فرمایا:
أقاموا حروفه ، وحرفوا حدوده ، فهم يروونه ، ولا يرعونه ، والجهال يعجبهم حفظهم للرواية ، والعلماء يحزنهم بتركهم للرعاية
ترجمہ : انہوں نے اس کے حروف کو برقرار رکھا، مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ اس کو پڑھتے ہیں، لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ جاہل اس کے الفاظ کی حفاظت پر فخر کرتے ہیں، جبکہ علماء ان کے عدم عمل پر غمگین ہوتے ہیں۔
حوالہ: الكافي ج8 ص53 ،البحار ج75 ص359 ،الوافي ج5 ص274 ،المحجة البيضاء ج2 ص264 ،البيان للسيد الخوئي ص249

امام باقر علیہ السلام سے یہ بھی روایت ہے:
ما يستطيع أحد أن يدعي : أن عنده جميع القرآن ، ظاهره وباطنه ، غير الأوصياء
ترجمہ: کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس قرآن کا مکمل علم ہے، ظاہری اور باطنی دونوں، سوائے اوصیاء کے۔
حوالہ: الكافي ج1 ص178، بصائر الدرجات ص193 ،الوافي ج2 ص130 ،تفسير البرهان ج1 ص2 و15

تو مومنین و مومنات قرآن کے معانی میں تحریف کو اس طرح سمجھیں کہ اہل بیت علیہم السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو تفسیر اور تأویل منقول ہوئی ہے، اسے حذف یا نظرانداز کیا گیا ہے، اور نزول آیات کے متعلق روایات میں تحریف اور چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

اسی طرح ناسخ اور منسوخ، محکم اور متشابہ کی تشریحات میں بھی اہل بیت علیہم السلام کی جانب رجوع نہیں کیا گیا، اور اس کی جگہ غلط اجتهادات اور نامناسب تفاسیر پیش کی گئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اہل عربیت کی جانب سے ایسی تاویلیں پیش کی گئیں جو قرآن کے معانی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھیں، جس سے معانی میں شکوک پیدا ہو گئے۔ اسی لیے آئمہ اطہار علیہم السلام نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
أصحاب العربية يحرفون كلام الله عز وجل ، عن مواضعه
ترجمہ: عربی زبان کے ماہر لوگ کلمات کو ان کے اصل مقامات سے ہٹا دیتے ہیں۔
حوالہ: مستدرك سفينة البحار ، ج ٧ – الصفحة ١٣٩

دل کر رہا ہے یہاں اہل سنت کو تھوڑا سا آئینہ دکھا دوں تاکہ میرے اب تک کیے ضبط کو قرار مل جائے۔

مومنین یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس پر اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کا اتفاق ہے کہ قرآن جو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، وہی قرآن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوا۔ اس معاملے میں ہمارے مذہب کے جلیل القدر علماء نے صراحت کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ جہاں تک کسی ضعیف روایت کا تعلق ہے، وہ یا تو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے (یعنی وضع کی گئی ہے) یا پھر وہ تاویل اور تفسیر پر مبنی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکاہے، قرآن کی آیات کی تفسیر میں اختلاف رہا ہے۔

مزید یہ کہ اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار صرف قرآن مجید کو کامل اور غیر متنازع سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر کتاب پر علمی تحقیق اور بحث کی جا سکتی ہے، اور روایات کو صحیح یا ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض روایات ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ وضاعین (جعلی روایت بنانے والوں) کی طرف سے وضع کی گئی تھیں۔ اس کے برعکس اہل سنت بعض کتب کو مکمل طور پر صحیح مانتے ہیں اور ان پر بحث و تحقیق کو قبول نہیں کرتے۔

اسی میں نسخ تلاوت کا نظریہ ہے جو دراصل تحریف کے نظریے کا ہی ایک اور نام ہے، اور اس بنیاد پر اہل سنت علماء کے ہاں نسخ تلاوت کا قول تحریف کے نظریے کو عام کرنے کا موجب بنتا ہے۔

اکثر اہل سنت علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ قرآن کی بعض آیات کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے، اور انہوں نے ان روایات کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کا حصہ تھیں۔ ان روایات میں سے چند کا ذکر کرتا ہوں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ ان روایات کی صحت کو قبول کرنا دراصل قرآن میں تحریف کو تسلیم کرنا ہے:

1- ابن عباس نے روایت کی کہ عمر نے منبر پر کہا:
اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور ان پر کتاب نازل کی، اور جو کچھ اللہ نے نازل کیا تھا اس میں آیت رجم بھی شامل تھی، ہم نے اسے پڑھا، سمجھا اور یاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجم کا حکم دیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا، لیکن مجھے ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی کہے گا کہ ہمیں کتاب اللہ میں آیت رجم نہیں ملی، اور اس طرح اللہ کی نازل کردہ فریضے کو چھوڑ دیں گے…
حوالہ : صحیح بخاری 8/26، صحیح مسلم 5/116

2- طبرانی نے ایک موثق سند کے ساتھ عمر سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا:
قرآن ایک ملین ستائیس ہزار حروف پر مشتمل تھا۔
حوالہ: الاتقان 1/121
جبکہ موجودہ قرآن میں یہ تعداد اس کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

3- عائشہ نے روایت کی کہ ‘سورۃ الاحزاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں 200 آیات پر مشتمل تھی، لیکن جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو ہمیں اس میں اتنی آیات نہ مل سکیں’
حوالہ: الاتقان 2/41

ان روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہل سنت میں نسخ تلاوت کا نظریہ تحریف کی قبولیت کی ایک شکل ہے۔

مزید دقت سے کہا جائے تو بہت سے اہل سنت علماء نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ آیات کی تلاوت منسوخ ہوئی، اور اس کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے کچھ آیات غائب ہو چکی ہیں۔

خیر یہ تو اہل سنت کو ضمنی پھکی کے طور میں بیچ میں بیان کر دیا اب دوسرے حصے کی جانب بڑھتے ہیں اور شیعہ روایات اور علماء شیعہ کے اقوال کی روشنی میں عدمِ تحریف قرآن کو ثابت کرکے جاہل و متعصب اہل سنت پر واضح کرتے ہیں کہ جو موجودہ قرآن ہے وہی اصل قرآن ہے جس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوئی اور اسی قرآن سے متمسک رہنے کی تلقین اہل بیت علیہم السلام نے بھی کی ہے ۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تشیع میں موجود اللہیاری سے متاثر اکثر مومنین و مومنات کو تحریف قرآن پر قوی گمان لاحق ہو چکا ہے تو کیوں نا پہلے عقلی انداز میں انہیں مزید بھی سمجھایا جائے ۔

تو حسن اللہیاری سے متاثر مومنین تھوڑی توجہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ اور ایک دوسری آیت میں اللہ فرماتا ہے : … وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ * لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے تحفظ کا عہد کیا ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی تحریف اس کتاب کو متاثر کر سکے؟ سوچیں ذرا

اس کے علاوہ، قرآن کریم کو کبھی فراموش یا ترک نہیں کیا گیا کہ کوئی شخص اس میں کچھ اضافہ یا کمی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن حفظ کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تھی، جو ہر آیت کو اس کے نازل ہونے پر حفظ کر لیتے تھے۔

اس زمانے میں قرآن کی تلاوت سب سے بہترین عبادات میں شمار کی جاتی تھی، جسے رات دن پڑھا جاتا تھا۔

عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ ایسی کتاب کسی بھی قسم کی تحریف کا شکار نہیں ہو سکتی، نہ تو اضافے کی صورت میں اور نہ ہی کمی کی صورت میں۔
اسلامی روایات جو ہمیں معصوم ائمہ علیہم السلام سے ملی ہیں، وہ قرآن کریم کی مکمل صحت اور عدم تحریف کی تصدیق کرتی ہیں۔

امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا:
وَأَنْزَلَ عَلَيْكُمُ (الْكِتابَ تِبْياناً) ، وَعَمَّرَ فِيكُمْ نَبِيَّهُ أَزْمَاناً ، حَتَّى أَكْمَلَ لَهُ وَلَكُمْ فِيما أنْزَلَ مِنْ كِتَابِهِ دِينَهُ الَّذِي رَضِيَ لِنفْسِهِ
ترجمہ: اور اس نے تم پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کا واضح بیان ہے، اور تمہارے درمیان اپنے نبی کو مدتوں تک زندہ رکھا، یہاں تک کہ اس نے جو کتاب نازل کی اس کے ذریعے اس کا اور تمہارا دین مکمل کر دیا، وہ دین جسے اس نے اپنی ذات کے لیے پسند کیا۔
حوالہ : نہج البلاغہ، خطبہ 85

جب بھی امیر المؤمنین علیہ السلام قرآن کا ذکر کرتے ہیں، تو ہم تحریف کے بارے میں کوئی بات نہیں پاتے، بلکہ وہ قرآن کی مکمل صحت کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔
امام تقی جواد علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک خطاب میں فرمایا:
وكَان مِنْ نَبذِهم الكِتَاب أن أقامُوا حُرُوفَه وحرَّفوا حُدُودَه
ترجمہ: اور ان کا کتاب کو ترک کرنے کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اس کے حروف کو قائم رکھا، لیکن اس کی حدود کو بدل دیا۔
حوالہ : اصول کافی، ج 8، ص 53

یہ حدیث اور اس کی مانند دوسری روایات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہے ہیں، جبکہ معانی میں تحریف ہوئی ہے، یعنی بعض لوگوں نے اپنی نفسیاتی میول اور ذاتی مفادات کے مطابق کچھ آیات کی تفسیر کی۔
یہاں ایک اہم مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ جو روایات تحریف کے بارے میں ہیں، وہ معنوی تحریف اور رائے کی تفسیر کی بات کر رہی ہیں، نہ کہ الفاظ اور عبارات میں تحریف کی۔
دوسری طرف، ہمیں معصوم ائمہ علیہم السلام سے کئی معتبر روایات ملی ہیں جو کہ روایات کو قرآن پر پیش کرنے کا حکم دیتی ہیں، خاص طور پر جب ان میں تضاد ہو؛ تاکہ صحیح روایات کو غلط روایات سے جانچا جا سکے۔ جو قرآن کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، اور جو اس کے خلاف ہو، اسے چھوڑ دیا جائے:
اعرِضُوهُمَا عَلى كِتابِ اللهِ فَما وَافَق كِتَاب اللهِ فَخُذُوه ، ومَا خَالَف كِتاب اللهِ فَرُدُّوه
ترجمہ: ان دونوں (باتوں) کو اللہ کی کتاب پر پیش کرو۔ جو چیز اللہ کی کتاب کے مطابق ہو اسے قبول کرو، اور جو اللہ کی کتاب کے خلاف ہو اسے رد کر دو۔
حوالہ : وسائل الشیعہ، ج 18، ص 80

یہ قرآن میں تحریف کے عدم وقوع کی واضح دلیل ہے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ حق و باطل کی شناخت کا معیار نہیں بن سکتا۔

اس کے علاوہ، معروف اور کثرت سے نقل شدہ حدیث ثقلین میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنِّي تَاركٌ فيكم الثِّقْلَيْنِ كِتابَ اللهِ وعِتْرَتِي أهْلَ بَيْتِي مَا إنْ تَمَسَّكْتُم بِهِمَا لنْ تَضِلُّوا
ترجمہ: بیشک میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب اور اپنی عترت یعنی اپنے اہلِ بیت۔ جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔

یہ عظیم حدیث واضح طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کریم نبیؐ کے اہل بیتؑ کے ساتھ مل کر انسانیت کی ہدایت کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
حوالہ : بحار الانوار، ج 36، ص 331

اللہیاری سے متاثر مومنین اب مجھے عقل سے جواب دیں کہ اگر قرآن تحریف شدہ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہو، اور انہیں گمراہی سے بچائے؟

اب آگے بڑھتے ہیں اور مزید شیعہ روایات سے ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام نے تحریف قرآن کو یکسر رد کیا ہے اور موجودہ قرآن کو ہی اپنے شیعوں کے لئے پیش کیا ہے۔

شیخ وحید بہبہانی نے "الرسائل الفقہیہ” میں بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أيها الناس ، ما جاءكم عني يوافق كتاب الله فأنا قلته ، وما جاءكم يخالف كتاب الله فلم أقله
ترجمہ: اے لوگو! جو کچھ تمہارے پاس میری طرف سے آئے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق ہو، تو وہ میں نے کہا ہے، اور جو کچھ تمہارے پاس آئے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف ہو، تو وہ میں نے نہیں کہا۔”
یہ خطبہ منیٰ میں دیا گیا اور سب کے نزدیک معروف ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
لا تصدق علينا إلا بما يوافق كتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه واله
ترجمہ: ہماری تصدیق نہ کرو مگر اسی چیز کی جو کتابِ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے موافق ہو۔
حوالہ: علامہ مجلسی –بحار الأنوار – جلد: 2، صفحہ: 244

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
كل شئ مردود إلى الكتاب والسنة ، وكل حديث لا يوافق كتاب الله فهو زخرف
ترجمہ: ہر چیز کو قرآن اور سنت پر پرکھا جائے گا، اور جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو، وہ باطل ہے۔
حوالہ: وسائل الشیعہ – جلد: 27، صفحہ: 111

ایک صحیح روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
ا ايها الناس ما جاءكم عني يوافق كتاب الله فانا قلته ، وما جاءكم يخالف كتاب الله فلم أقله
ترجمہ: اے لوگو! جو کچھ تمہارے پاس میری طرف سے آئے اور وہ قرآن کے موافق ہو، تو وہ میں نے کہا ہے، اور جو کچھ قرآن کے خلاف ہو، وہ میں نے نہیں کہا۔
جابر سے روایت ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
انظروا أمرنا وماجاءكم عنا ، فان وجدتموه للقرآن موافقا فخذوا به وان لم تجدوه موافقا فردوه ، وان اشتبه الامر عليكم فقفوا عنده وردوه الينا نشرح لكم من ذلك ما شرح لنا
ترجمہ: ہمارے امر (تعلیمات) اور جو کچھ ہماری طرف سے تمہارے پاس آیا ہو، اس پر غور کرو۔ اگر تم اسے قرآن کے مطابق پاؤ تو اسے قبول کرو، اور اگر قرآن کے مطابق نہ پاؤ تو اسے رد کر دو۔ اور اگر معاملہ تمہارے لیے مشتبہ ہو جائے (یعنی تمہیں سمجھ نہ آئے)، تو اس پر توقف کرو اور اسے ہماری طرف لوٹا دو، ہم تمہیں اس کی وضاحت کریں گے جیسا کہ ہمارے لیے وضاحت کی گئی ہے۔
حوالہ : الأصول الأصلية – صفحہ: 97

تفسیر عیاشی میں محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
يا محمد ، ما جاءك في رواية من بر أو فاجر يوافق القرآن فخذ به ، وما جاءك في رواية من بر أو فاجر يخالف القرآن فلا تأخذ به
ترجمہ: اے محمد! جو روایت تمہارے پاس کسی نیک یا بد کردار سے آئے اور وہ قرآن کے موافق ہو، تو اسے قبول کرو، اور جو روایت قرآن کے خلاف ہو، اسے قبول نہ کرو۔
اسی طرح "الکافی” میں معتبر روایت میں ہشام بن الحکم اور دیگر سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا اور فرمایا:
أيها الناس ، ما جاءكم عني يوافق كتاب الله فأنا قلته ، وما جاءكم يخالف كتاب الله فلم أقله
ترجمہ: اے لوگو! جو کچھ تمہارے پاس میری طرف سے آئے اور وہ قرآن کے موافق ہو، تو وہ میں نے کہا ہے، اور جو کچھ قرآن کے خلاف ہو، وہ میں نے نہیں کہا۔
حوالہ : تحریرات فی الاصول – جلد: 6، صفحہ: 436

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا اور فرمایا:
أيها الناس ، ما جاءكم عني يوافق كتاب الله فأنا قلته ، وما جاءكم يخالف كتاب الله فلم أقله .
ترجمہ: اے لوگو! جو کچھ تمہارے پاس میری طرف سے آئے اور وہ قرآن کے مطابق ہو، تو وہ میں نے کہا ہے، اور جو کچھ قرآن کے خلاف ہو، وہ میں نے نہیں کہا۔

ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إن على كل حق حقيقة ، وعلى كل صواب نورا ، فما وافق كتاب الله فخذوه ، وما خالف كتاب الله فدعوه .
ترجمہ: ہر حق کی ایک حقیقت ہے، اور ہر درست چیز میں روشنی ہے، جو چیز قرآن کے مطابق ہو اسے قبول کرو، اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو، اسے چھوڑ دو۔
موثق روایت میں ایوب بن راشد سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ما لم يوافق من الحديث القرآن فهو زخرف
ترجمہ: جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو، وہ باطل ہے۔
حوالہ: تسدید الأصول – جلد: 2، صفحہ: 53

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:
إن الحديث سيفشو علي ، فما أتاكم عني يوافق القرآن ، فهو عني ، وما أتاكم عني يخالف القرآن فليس عني.
وعن علي ” عليه السلام ” : ” ستكون عني رواة يروون الحديث ، فاعرضوه على القرآن ، فإن وافق القرآن فخذوه ، وإلا فدعوه
ترجمہ: میری طرف سے بہت سی باتیں منسوب کی جائیں گی، جو کچھ تمہارے پاس میری طرف سے آئے اور وہ قرآن کے موافق ہو، تو وہ میری بات ہے، اور جو کچھ قرآن کے خلاف ہو، وہ میری بات نہیں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "میرے بارے میں احادیث روایت کی جائیں گی، انہیں قرآن پر پیش کرو، اگر وہ قرآن کے مطابق ہوں تو انہیں قبول کرو، اور اگر قرآن کے خلاف ہوں تو انہیں چھوڑ دو۔
حوالہ : الصحيح من السيرة – جلد: 1، صفحہ: 268

امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے:
فما ورد عليكم من خبرين مختلفين فاعرضوهما على كتاب الله فما كان في كتاب الله موجوداً حلالاً أو حراماً فأتبعو ما وافق الكتاب ، وما لم يكن في الكتاب فإعرضوه على سنن النبي( ص )
ترجمہ : جب تمہارے پاس دو مختلف روایات آئیں تو انہیں قرآن پر پیش کرو، جو قرآن میں موجود حلال یا حرام کے مطابق ہو، اسے قبول کرو، اور جو قرآن میں نہ ہو، اسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر پیش کرو۔
عیون اخبار الرضا – جلد: 2، صفحہ: 20

آخر میں، شیعہ علماء کے اقوال کی اہمیت پر زور دینا ضروری ہے، کیونکہ کسی بھی مذہب کی گہری سمجھ ان علماء کے پاس ہوتی ہے جو اپنی پوری زندگی اپنے مکتبِ فکر کے علوم کے حصول اور تدریس میں صرف کرتے ہیں۔ ان ہی علماء کا فہم اور بصیرت ہمارے لیے قابلِ قبول اور رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے۔

(نوٹ: تحریر کافی طویل ہو چکی تو اب عربی متون کوچھوڑ کر فقط ترجمہ پیش کروں گا۔)

۔ علی بن ابراہیم قمیؒ – "تفسیر قمی” – جلد: 1 – صفحہ نمبر: 26
قرآن حکیم کے برعکس، یہ لکھا ہوا اور مدون تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے پاس، ایک قول کے مطابق، یا مختلف جگہوں پر تختیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھا ہوا تھا، جسے خلفاء نے مرتب کیا تھا۔ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن جو آج ہمارے پاس موجود ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اپنی اعجاز کی حالت میں محفوظ ہے۔ اس میں نہ حقیقت میں کوئی تغیر آیا ہے اور نہ مجاز میں، ‘باطل نہ آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے’، یہ قرآن اپنی قدیم عظمت پر برقرار ہے۔

۔ علامہ مجلسیؒ – "بحار الأنوار” – جلد: 9 – صفحہ نمبر: 113
بے شک ہم نے ذکر (قرآن) نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں” کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی زیادتی، کمی، تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ہم اسے مشرکین کے مکر سے بچاتے ہیں، نہ تو یہ باطل ہو گا، نہ مٹایا جائے گا، اور نہ بھلایا جائے گا۔

۔ شیخ صدوقؒ – "اعتقادات الإمامية” مع شرح الباب الحادی عشر – صفحہ نمبر: 93-94
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن وہی ہے جو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا، اور وہی ہے جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ سورتوں کی تعداد 114 ہے۔

۔ شیخ مفیدؒ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 41
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ایک دو لفظ یا حروف کا اضافہ کیا گیا ہے، جو حد اعجاز کو نہیں پہنچتا اور یہ قرآن کے الفاظ میں شامل ہو گیا ہے، لیکن اللہ اس پر روشنی ڈالتا ہے اور حق کو واضح کرتا ہے۔ تاہم، میں اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہتا بلکہ میں قرآن کی سلامتی پر یقین رکھتا ہوں۔

۔ شریف مرتضیٰؒ کا نظریہ:
روایت کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن اسی ترتیب اور حالت میں موجود تھا جیسے اب ہے۔ قرآن کا اس وقت مکمل طور پر حفظ کیا جاتا تھا اور اس کی تعلیم دی جاتی تھی، حتیٰ کہ بعض صحابہ کو قرآن حفظ کرنے کا حکم دیا گیا۔ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور آپ پر تلاوت کی جاتی تھی۔ بعض صحابہ جیسے عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب اور دیگر نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کئی بار قرآن مکمل کیا۔
یہ سب باتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قرآن مرتب تھا، بکھرا ہوا نہیں تھا اور نہ ہی متفرق حالت میں تھا۔

۔ شیخ طوسیؒ کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 42
جہاں تک قرآن میں اضافہ یا کمی کی بات ہے، تو اس پر گفتگو کرنا بھی مناسب نہیں، کیونکہ اس میں اضافہ ہونے کے امکان پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ باطل ہے، اور جہاں تک کمی کا تعلق ہے، مسلمانوں کے مکتب فکر کا ظاہر یہی ہے کہ اس کے خلاف ہے۔ یہ ہمارا درست نظریہ ہے جسے شریف مرتضیٰ نے بھی بیان کیا ہے اور یہی روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ ہماری روایات قرآن کی قراءت اور اس پر عمل کرنے کی تاکید کرتی ہیں، اور اختلافات کو حل کرنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت دیتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث جو سب کو قبول ہے یہ ہے کہ ’میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب اور میری عترت، اہلِ بیت، اور یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں گے‘۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن ہر دور میں موجود رہا ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ہمیں کسی ایسی چیز کو پکڑنے کا حکم دیں جو موجود نہ ہو۔

شیخ طبرسیؒ کا نظریہ – "تفسیر مجمع البیان” – صفحہ نمبر: 15 و 42
قرآن کو محفوظ کرنے اور منتقل کرنے کی غیر معمولی کوششیں کی گئیں۔ چونکہ قرآن نبوت کا معجزہ اور شرعی علوم و دینی احکام کا منبع ہے، اس لیے مسلمانوں نے اس کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ہر اختلافی نکتے، اس کی قراءت، حروف اور آیات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے قرآن میں تبدیلی یا کمی کا امکان نہیں ہے، کیونکہ اس کی حفاظت انتہائی سختی سے کی گئی ہے۔
جہاں تک قرآن میں اضافہ یا کمی کی بات ہے، تو اضافہ کے امکان کو سب نے رد کیا ہے اور جہاں تک کمی کا تعلق ہے، کچھ لوگوں نے اس میں تبدیلی یا کمی کا دعویٰ کیا، لیکن ہمارے مکتب فکر کا صحیح نظریہ اس کے خلاف ہے۔

۔ سید روح اللہ خمینیؒ – "تہذیب الأصول” – جلد: 2 – صفحہ نمبر: 165
جو شخص مسلمانوں کی کتاب (قرآن) کو جمع کرنے، اسے محفوظ کرنے اور اس کی قراءت اور کتابت پر ان کی توجہ کا مشاہدہ کرے، وہ اس باطل نظریے کی حقیقت کو جان لیتا ہے۔ ان کی طرف سے پیش کردہ روایات، یا تو ضعیف ہیں اور استدلال کے لائق نہیں، یا جعلی ہیں جن پر جعل سازی کی علامات موجود ہیں، یا ایسی عجیب ہیں جو حیرت میں ڈالتی ہیں۔ جو صحیح روایات ہیں، وہ تاویل و تفسیر کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور جو تحریف ہوئی ہے وہ الفاظ اور عبارات میں نہیں، بلکہ تاویلات میں ہے۔ اس تفصیل کے لیے ایک جامع کتاب درکار ہے جس میں قرآن کی تاریخ اور صدیوں کے دوران اس کے مراحل کو بیان کیا جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم وہی ہے جو آج ہمارے سامنے موجود ہے، نہ اس میں کوئی اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی …”

۔ شیخ علی کورانی عاملی – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 40
شیعہ علماء کے فتاویٰ جو ہر دور میں شیعہ مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ فتاویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی۔ یہ علماء جو شیعہ مسلک کے ماہر ہیں، وہی شیعہ عقیدے کو بیان کرتے ہیں۔ شیعہ مراجع تقلید کے فتاویٰ میں وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن پر شیعہ کا اعتقاد مکمل ہے، اور جو قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا، وہی آج موجود ہے، نہ اس میں کمی ہوئی ہے نہ زیادتی۔

۔ محمد فیض کاشانی کا نظریہ – "تفسیر الصافی” – صفحہ نمبر: 51
اللہ عزوجل نے فرمایا: ’بے شک یہ ایک معزز کتاب ہے، جس میں باطل نہ آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے‘ اور ’بے شک ہم نے ذکر (قرآن) نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘۔ پھر قرآن میں تحریف اور تبدیلی کا کیا امکان ہے؟”
"نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی حدیثوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پر حدیث کو پرکھا جاتا ہے تاکہ اس کی صحت کو معلوم کیا جا سکے۔ اگر قرآن محرف ہوتا تو یہ پرکھنا بے فائدہ ہوتا۔ اس لیے تحریف کی حدیث قرآن کے مخالف ہے اور اسے رد کیا جانا چاہیے۔

۔ شیخ جعفر کاشف الغطاء کا نظریہ – "کشف الغطاء” – صفحہ نمبر: 298
نہ اس میں کوئی سورت کا اضافہ ہے، نہ آیت کا، نہ بسم اللہ کا، نہ کوئی لفظ یا حرف کا اضافہ۔ جو کچھ دو جلدوں کے درمیان ہے، وہ اللہ کا کلام ہے، اور یہ بات ہمارے مذہب اور دین کی ضرورت سے ثابت ہے، اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔ قرآن کی ہر دور میں حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی کا کوئی امکان نہیں۔

۔ سید محسن الامین کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 43
سید محسن الامین العاملی: "نہ پہلے کبھی اور نہ آج تک کوئی امامیہ عالم قرآن میں کسی قسم کا اضافہ مانتا ہے، نہ کم اور نہ زیادہ، بلکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں اضافہ نہیں ہوا اور جو ہمارے محققین ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس میں کوئی کمی بھی نہیں ہوئی۔

۔ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 43
مسلمانوں کے پاس جو قرآن موجود ہے، وہ وہی ہے جو اللہ نے نازل کیا، جس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی، اور اس بات پر سب کا اجماع ہے۔

۔ سید شرف الدین العاملی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 43
قرآن وہی ہے جو دو جلدوں کے درمیان ہے، نہ اس میں کوئی حرف کا اضافہ ہے، نہ کمی، اور نہ کسی حرف کو کسی دوسرے حرف سے بدلا گیا ہے۔ ہر حرف کو ہر نسل میں تواتر کے ساتھ منتقل کیا گیا ہے، حتیٰ کہ وحی اور نبوت کے زمانے تک۔ صحابہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کرتے اور تلاوت کرتے تھے، اور انہوں نے کئی بار آپ کے سامنے قرآن مکمل کیا۔

۔ سید ابو القاسم خوئی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 46
قرآن میں تحریف کا نظریہ محض ایک خیالی بات ہے، جو اس پر یقین رکھتا ہے وہ یا تو عقل سے کمزور ہے یا اس نے معاملے پر غور نہیں کیا۔

۔ شیخ لطف اللہ صافی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 46
قرآن نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے، اور یہ وہ کتاب ہے جس میں باطل نہ آگے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ اس نے فصحاء کو عاجز کر دیا کہ وہ اس جیسی کوئی سورت یا آیت بھی لا سکیں، اور بلاغت کے ماہرین اور ادباء کو حیرت میں ڈال دیا۔ چودہ صدیاں گزر چکی ہیں اور ان صدیو‍ں کے دوران کوئی بھی اس جیسا قرآن لانے پر قادر نہیں ہو سکا، اور نہ ہی آئندہ زمانوں میں کوئی اس کی نظیر پیش کر سکے گا۔ یہ قرآن اسلام کی روح، زندگی اور بنیاد ہے۔ اگر قرآن نہ ہوتا تو ہماری کوئی شناخت اور وجود نہ ہوتا۔
یہ قرآن وہی ہے جو دو جلدوں کے درمیان موجود ہے اور اس میں کوئی انسانی کلام شامل نہیں ہے۔ اس کی ہر سورت اور آیت متواتر اور قطعی طور پر محفوظ ہے۔ اس پر دلیل عقل، نقل اور قطعی تواتر سے قائم ہے، اور یہی قرآن شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کا کوئی راستہ نہیں ہے، اور اس کے بارے میں شک صرف وہی کرے گا جو یا تو جاہل ہو یا فکری انحراف کا شکار ہو۔

۔ علامہ حلی کا نظریہ – "نہایة الأصول” – مبحث التواتر
سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو قرآن ہم تک متواتر طور پر منتقل ہوا ہے، وہ حجت ہے۔

۔ سید محسن حکیم الطباطبائی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 45
بڑے محققین اور علماء دونوں فریقوں اور عام مسلمانوں کی عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتوں کی ترتیب اور جمع وہی ہے جو دورِ رسالت میں تھی، اور اس پر نہ پہلے کسی بڑے نے تحریف کا دعویٰ کیا ہے، نہ بعد میں۔

۔ سید محمد حسین طباطبائی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 45
جو قرآن اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا، وہ محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی، کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے، جیسا کہ اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ ’ہم نے ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘۔

۔ سید محمد رضا کلبایکانی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 45
قرآن وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، اور وہ ترتیب کے ساتھ دور رسالت میں نازل ہوا تھا۔ اس میں نہ کوئی تحریف ہوئی اور نہ کوئی تبدیلی، اور نہ کوئی اضافہ یا کمی ہوئی۔ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ قرآن میں تحریف کا امکان ہو، اور اس کی حفاظت کی دلیل بالکل واضح ہے۔

۔ سید ابو القاسم خوئی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 46
قرآن میں تحریف کا نظریہ محض ایک افسانہ ہے، اور اس پر یقین صرف وہی کرے گا جس کی عقل کمزور ہو یا جس نے اس معاملے پر گہرائی سے غور نہیں کیا۔

۔ سید محمد ہادی میلانی کا نظریہ – "تدوین القرآن” – صفحہ نمبر: 45
میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ قرآن کریم میں نہ کوئی تحریف ہوئی ہے، نہ اس میں کوئی اضافہ ہوا ہے اور نہ کوئی کمی۔ جو روایات تحریف کا ذکر کرتی ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے معنی میں تبدیلی کی گئی ہو گی، نہ کہ اس کے الفاظ میں۔ اگر کوئی ایسی روایت کو درست سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے، کیونکہ ظن و گمان حق کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں۔

۔ سید العاملی کا نظریہ – "مفتاح الکرامة” – جلد: 2، صفحہ: 390
عام عادت یہ ہے کہ قرآن کی تفصیلات، اس کے اجزاء، الفاظ، حرکات اور سکنات کی ترتیب تواتر کے ساتھ منتقل ہوئی ہیں، کیونکہ اس کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، کیونکہ یہ تمام احکام کا اصل ماخذ ہے اور اس کی معجزانہ حیثیت ہے۔ اس لیے اس کی مخالفت کرنے والوں یا شک کرنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں۔

۔ شیخ محمد بن الحسن الحر العاملی کا نظریہ
جو شخص تاریخ کا مطالعہ کرے، اسے یقین ہو جائے گا کہ قرآن انتہائی مضبوط تواتر کے ساتھ ثابت ہے، اور ہزاروں صحابہ نے اسے نقل کیا، اور یہ کہ قرآن رسول اللہ (ص) کے زمانے میں مجموعی طور پر موجود تھا۔

۔ شیخ البلاغی – "آلاء الرحمن” – جلد: 1
قرآن کا عام مسلمانوں کے درمیان نسل در نسل متواتر ہونا، اور اس کی مواد اور شکل کو ہمیشہ یکساں طور پر برقرار رکھنا، ایک حقیقت ہے۔ اس کے متن یا قراءت پر کسی بھی قسم کا اختلاف اس کی اصل مواد پر اثر انداز نہیں ہوا، حتیٰ کہ وہ روایات بھی جن میں قراءت کے بارے میں کچھ اختلافات بیان ہوئے ہیں، جیسے کہ سات مشہور قراءتیں اور دیگر۔

۔ محقق کلباسی کا نظریہ – "البیان فی تفسیر القرآن” – صفحہ: 234
وہ روایات جو تحریف کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ امت کے اجماع کے خلاف ہیں، سوائے ان کے جن کا کوئی اعتبار نہیں۔

۔ مرتضیٰ علم الہدیٰ (وفات: 436ھ) کا نظریہ
مرتضیٰ علم الہدیٰ نے اپنی پہلی "رسالہ الجوابیہ” میں کہا:
قرآن کی صحیح نقل کا علم ویسا ہی ہے جیسے ہمیں شہروں، اہم واقعات، بڑی کتابوں اور عرب کے مشہور اشعار کا علم ہے۔ قرآن کو محفوظ رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے، کیونکہ یہ نبوت کا معجزہ اور دینی علوم و احکام کا منبع ہے۔ علماء اسلام نے قرآن کو محفوظ رکھنے میں انتہائی محنت کی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے اس کی ہر قراءت، ہر حرف اور ہر آیت کے اختلافات کو بھی جان لیا ہے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا کمی ہوئی ہو؟

۔ فاضل تونی کا نظریہ – "الوافیہ” – صفحہ: 147
یہ مشہور ہے کہ قرآن محفوظ اور محفوظ ہے جیسا کہ نازل کیا گیا تھا، نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس میں کوئی تحریف۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’بے شک ہم نے ذکر (قرآن) نازل کیا، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘۔
۔ شیخ جواد البلاغی – "آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن” – جلد: 1، صفحہ: 26
قرآن کی حفاظت پر علماء اسلام نے ہمیشہ زور دیا ہے، اور ان کے نزدیک قرآن میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی اضافہ۔

۔ شیخ علی بن عبد العالی کرکی (وفات: 938ھ)
شیخ علی کرکی نے قرآن میں کمی کی نفی میں ایک مستقل رسالہ لکھا، جس میں انہوں نے کہا:
وہ روایات جو قرآن میں کمی کی نشاندہی کرتی ہیں، انہیں یا تو تأویل کی ضرورت ہے یا انہیں رد کر دینا چاہیے، کیونکہ اگر کوئی واقعہ قرآن و سنت کے متواتر دلائل کے خلاف ہو اور اس کی تأویل ممکن نہ ہو تو اسے رد کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ:

تو ثابت ہوا، امام علی علیہ السلام کا قرآن کے جمع کرنے والے پہلے انسان تھے جن کا عثمان کے جمع کردہ قرآن کے عمل میں کلیدی کردار تھا اور اگر وہ اس عمل میں شامل نہ ہوتے تو حضرت عثمان کا یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ حضرت علی کی قرآن کے بارے میں گہری علمیت، ان کی قریش کی زبان میں مہارت، اور ان کی خاموش حمایت اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ان کے بغیر قرآن کا جمع کرنا ناممکن تھا۔

تو ثابت ہوا، عثمان بن عفان کے قرآن جمع کرنے کا عمل اس کے ذاتی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے تھا۔ اہل بیت علیہم السلام اور بعض اہم صحابہ کو شامل نہ کرنا، قریش کی زبان کو ترجیح دینا، اور تمام دیگر مصاحف کو جلا دینا جیسے اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ عثمان نے یہ عمل اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے تحت انجام دیا جو قطعاً اس کے فضیلت پر دلیل نہیں بن سکتا۔

تو ثابت ہوا،اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک موجودہ قرآن تحریف سے پاک ہے اور یہی قرآن مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے ماننے والوں کو موجودہ قرآن کی پیروی کرنے کی تلقین کی اور اسے اللہ کا محفوظ کلام قرار دیا۔

والسلام
احقر۔#ابوعبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

زیادہ پڑھے جانے والی پوسٹس

Exit mobile version